ٓصوبائی دارلحکومت میں دھرنا برقرار

Nov 30, 2017

فرخ سعید خواجہ

ختم نبوت کے حلف نامے میں تبدیلی کے معاملے نے پاکستان کی سیاست کو تلپٹ کر دیا ہے۔ حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کو مشکل ترین صورت حال کا سامنا ہے۔ اگرچہ غلطی کا فوری ازالہ کیا گیا لیکن غلطی کس کی ہے اس کا تعین کرنے میں جو وقت لگا اس نے صورت حال خراب کر دی۔ فیض آباد اسلام آباد دھرنا 22 روز بعد ایک معاہدے کے نتیجے میں ختم ہو گیا لیکن لاہور کے چیئرنگ کراس چوک پر تحریک لبیک یا رسول اللہ ؐکے ڈاکٹر آصف اشرف جلالی کی قیادت میں گروپ کو تادم تحریر دھرنا ختم کرنے پر آمادہ نہیں کیا جا سکا ہے۔ پنجاب میں شہباز شریف حکومت سے اس معاملے میں پہلے ہی نرم رویہ اختیار کئے ہوئے تھی۔ سو ان کا اب بھی وہی طرز عمل ہے لیکن وفاقی حکومت اپنی ذمہ داری کو احسن طریقے سے نہیں نمٹا سکی۔ پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں دھرنا اس لحاظ سے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ خود مسلم لیگ (ن) کے 20 کے لگ بھگ ممبران قومی و صوبائی اسمبلی اس مسئلے پر اپنی نشستیں چھوڑنے پر آمادہ ہیں۔ پیر حمید الدین سیالوی کے مریدین بھی رانا ثناء اللہ کے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر آصف اشرف جلالی کا بھی یہی مطالبہ ہے اور شہباز شریف کے طرز عمل کو پیش نظر رکھا جائے تو کسی بھی وقت رانا ثنا اللہ کا استعفیٰ ہو سکتا ہے جس کے بعد دھرنا ختم کئے جانے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔
دوسرا اہم مسئلہ حلقہ بندیوں کے لئے الیکشن ایکٹ ترمیمی بل 2017ء کی نئی حلقہ بندی سے متعلق سینٹ سے منظوری ہے۔ نئی مردم شماری کے بعد حلقہ بندیوں کا معاملہ سنگین صورت حال اختیار کر چکا ہے۔ نئی مردم شماری کے بعد نئی حلقہ بندیاں ضروری ہیں اور اس سلسلے میں آئینی ترمیم کی ضرورت تھی۔ الیکشن کمشن نے نومبر کے آغاز میں کہہ دیا تھا کہ 10 نومبر تک ترمیم نہ کی گئی تو الیکشن 2018ء تاخیر کا شکار ہو سکتے ہیں۔ الیکشن کمشن کی تنبیہہ کو سامنے رکھتے ہوئے حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے اپنی سی کوششیں کر دیکھیں لیکن ان کی مخالف سیاسی جماعتیں انہیں ناکوں چنے چبوانے پر کمربستہ تھیں۔ سو انہوں نے حکمران جماعت کی ناک سے لکیریں نکلوائیں۔ جب کہیں جا کر 16 نومبر کو قومی اسمبلی میں حلقہ بندیوں کا ترمیمی بل منظور کروایا جا سکا۔ 17 نومبر کو سینٹ میں ختم نبوت حلف نامہ بحالی کی منظوری دے دی گئی لیکن پھر سینٹ ارکان کی بڑھتی تعداد ایوان سے باہر چلی گئی۔ سو سینٹ ارکان پورے نہ ہونے پر حلقہ بندیوں کا بل مؤخر کر دیا گیا۔
حکمران جماعت نے سرتوڑ کوششیں کیں اور 20 نومبر کو ایک مرتبہ پھر سینٹ میں حلقہ بندیوں کا بل لانے کا ارادہ کیا۔ 20 نومبر کو بھی سینٹ میں حکومت کو سبکی کا سامنا کرنا پڑا، جب سینٹ میں بل کی منظوری کے لئے مطلوبہ ارکان کی عدم موجودگی کے باعث اس بل کو مؤخر کرنا پڑا۔ حتیٰ کہ تاحال حلقہ بندیوں کابل سینٹ سے منظور نہیں کروایا جا سکا ہے۔ آئینی ماہرین عابد حسن منٹو اور خواجہ محمود احمد کے مطابق ترمیمی بل کی پارلیمنٹ سے منظوری میں ناکامی کی صورت میں الیکشن کمشن کو آئین کے آرٹیکل 220 کے تحت اختیار حاصل ہے کہ خود حلقہ بندیاں کر لے۔ آرٹیکل 220 میں کہا گیا ہے کہ ’’وفاق اور صوبوں کی تمام ایگزیکٹو اتھارٹیز چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمشن کو ان کے فرائض منصبی میں مدد دینے کی پابند ہوں گی‘‘۔ ان آئینی ماہرین کے مطابق اب جبکہ آئینی بل کی سینٹ سے منظوری میں ناکامی ہو گئی ہے۔ الیکشن کمشن کے پاس دو آپشن ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ سپریم کورٹ میں جائیں اور ان سے رہنمائی حاصل کریں۔ سپریم کورٹ مسئلے کے حل کے لئے الیکشن کمشن کو آئین کے آرٹیکل 220 کا اختیار استعمال کرنے کی ہدایت کر سکتی ہے۔ جبکہ الیکشن کمشن کے پاس دوسرا آپشن ہو گا کہ وہ ازخود آرٹیکل 220 نافذ کرے۔ الیکشن کمشن کے ذرائع نے بھی تصدیق کی ہے کہ ان کے پاس یہ دو آپشن ہی رہ گئے ہیں اور اس سلسلے میں الیکشن کمشن کا اجلاس اگلے ہفتے ہو گا جس میں حتمی فیصلہ کیا جائے گا تاکہ الیکشن 2018ء بروقت منعقد ہو سکیں۔
اب اگر ہم سیاسی جماعتوں کا جائزہ لیں کہ ان میں سے کتنی سیاسی جماعتیں آنے والے عام انتخابات کے لئے تیاریاں کر رہی ہیں تو یہ حیران کن حقیقت سامنے آتی ہے کہ تاحال سیاسی جماعتوں نے پارٹی ٹکٹوں کے اجراء کے لئے نہ تو اپنے پارلیمانی بورڈ تشکیل دیئے ہیں اور نہ ہی آنے والے الیکشن کے لئے ان کے انتخابی منشور سامنے آ سکے ہیں۔ البتہ مختلف سیاسی جماعتوں کے متوقع امیدوار اپنے اپنے حلقہ انتخاب میں سرگرم ہو چکے ہیں۔ موجودہ ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کے علاوہ مختلف شہروں اور قصبوں کے منتخب بلدیاتی نمائندے بھی آنے والے الیکشن میں اپنی اپنی پارٹی کے ٹکٹ کے حصول کے لئے راہ ہموار کرنے میں مصروف ہیں۔ مختلف سیاسی جماعتوں نے لگ بھگ ہر شہر اور دیہی علاقے میں بعض امیدواروں کو الیکشن لڑنے کے لئے گرین سگنل دے دیا ہے تاہم حتمی فیصلے ان جماعتوں کے پارلیمانی بورڈ ہی کریں گے۔

مزیدخبریں