اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ+وقائع نگار خصوصی+ نیوز ایجنسیاں) وزیر داخلہ احسن اقبال نے کہا ہے کہ عدالت کے حکم کے مطابق دھرنے کے دوران آپریشن کی لائیو کوریج کی اجازت نہیں دی جا سکتی تھی اسی لئے تمام نجی چینلز آف ائر کئے۔ کرکٹ میچ اور سکیورٹی صورتحال کی لائیو کوریج میں فرق ہے۔ پی بی اے کے ساتھ مل کر قدم اٹھایا گیا تھا۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سی پیک کے تحت 27 ارب ڈالر کے منصوبے انرجائز ہو چکے۔ پانامہ ڈرامہ نہ ہوتا تو ترقی کی شرح میں اضافہ ہوتا۔ پاکستان کی ترقی دیکھ کر دشمنوں کی نیندیں حرام ہو گئیں۔ پاکستان کی ترقی روکنے کیلئے مختلف سازشیں کی جا رہی ہیں۔ عمران خان سے سند نہیں لینی، 20 کروڑ عوام اور دنیا سے سند لینی ہے۔ عمران خان جیسے ارسطو مایوسی پھیلاتے ہیں۔ عالمی ادارے بھی پاکستان کی معاشی ترقی کا اعتراف کر رہے ہیں۔ پاکستان میں توانائی، انفراسٹرکچر کے شعبوں میں سرمایہ کاری ہو رہی ہے۔ عمران خان کو 2013ء میں عوام نے وزیراعظم منتخب نہیں کیا تو ہم کیا کریں۔ پورا ملک بھی استعفے دیدے تو عمران صاحب آپ کی باری نہیں آئے گی۔ عمران حکومت کو ناکام کرنا چاہتے ہیں۔ آپ کے دھرنے سے تو پارلیمنٹ بھی محفوظ نہیں رہی۔ عمران خان کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہا ہے کہ حالیہ دھرنا کیسے ختم ہو گیا۔ عمران خان دھرنے کی ناکامی آپ سے برداشت نہیں ہو رہی۔ کپتان تیلی ہاتھ میں لے کر گھومنے والے فسادی بابا ہیں۔ عمران خان نے پارلیمنٹ پر لشکرکشی کی، سول نافرمانی کی تحریک کی کوشش کی۔ عمران خان کی جماعت الیکشن ایکٹ کے تحت عمل کا حصہ تھی قانون کا مسودہ تیار کرنے والی کمیٹی میں شامل آپ کی جماعت مطمئن تھی۔ انٹرنیشنل لابی کے کہنے پر ترمیم کی تو آپ بھی اس کا حصہ ہیں۔ عمران خان کی پارٹی کے 4 ارکان بھی اس کمیٹی میں تھے۔ عمران خان کی سیاست کے استاد شیخ رشید بھی کمیٹی میں تھے۔ جب قانون بنا تو تمام ارکان نے اپنی اپنی تجاویز دی تھیں۔ کمیٹی کے تیارکردہ مسودے سے تحریک انصاف مطمئن تھی۔ سینٹ میں حافظ حمداللہ نے حلف نامے پر سوال اٹھایا تھا۔ عمران خان آج بھی نواز شریف کے خوف سے نہیں نکل سکے۔ آپ نے فیض آباد دھرنا ختم ہونے پر دو نفل پڑھے۔ آپ کا دھرنا ختم ہونے پر عوام نے سو نفل پڑھے۔ آپ نے 2016ء میں بھی ایک اور کوشش کی، لوگوں نے کان نہیں دھرے۔ اگر لاک ڈاؤن کی آپ کی اپیل عوام نے نہیں سنی تو ہمارا کیا قصور ہے؟ آئین میں ختم نبوت پر قوم نے مہر لگا دی۔ یہاں مسلمانوں کو مسلمانوں سے لڑانے کی سازش ہو رہی ہے۔ پاکستان پر دنیا کا اعتماد بحال ہو چکا ہے۔ عمران خان پاکستان کے نوجوانوں کا مستقبل تباہ کر رہے ہیں۔ عمران خان بتائیں 4 سال میں خیبر پی کے میں کرپشن کیخلاف کیا کیا۔ دھرنا ختم کرنے کیلئے سول اور عسکری قیادت نے مل کر قدم اٹھایا۔ ہمارے پاس تخریب کاری کی اطلاعات تھیں۔ عمران خان باز نہ آئے تو ہمیں بھی تنقید کرنی پڑے گی۔ کھلاڑی ہونے کے باوجود عمران میں سپورٹس مین سپرٹ نہیں۔ کرپشن کے مگرمچھ پی ٹی آئی کی چھتری تلے جمع ہو گئے ہیں۔ عمران خان نئے پاکستان کا ایک دروازہ یا کھڑکی بھی نہیں بنا سکے۔ پاکستان اور جمہوریت ایک سکے کے دو رُخ ہیں۔ انتظامیہ نے ایک سطح پر جا کر فیض آباد آپریشن روکا۔ پولیس نے دھرنا مظاہرین سے آتشی اسلحہ برآمد کیا۔ دریں اثنا وزیر داخلہ نے پولیس لائنز کا دورہ کیا۔ اس موقع پر انہوں نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 6ہزار سے زائد شہید اور 70ہزار زخمی ہوئے، 100ارب سے زائد کا نقصان ہوا۔ ملک میں دہشت گردوں کے خلاف بھرپور آپریشن شروع کیا، کراچی میں امن بحال کیا، بلوچستان میں امن لائے اور قبائلی علاقوں میں آپریشن کیا، ہم نے پورے ملک میں سکیورٹی آپریشنز شروع کئے۔ سکیورٹی آپریشنز کے دوران بڑی حد تک دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے۔ اسلامی ملک میں جہاد کا صرف ریاست کو حق ہے۔ اب ہمیں اسلام آباد کو فول پروف سکیورٹی فراہم کرنا ہے، اسلام آباد کیلئے 2000ء کی نفری پر اینٹی رائٹ پولیس بنائیں گے۔وزیر داخلہ نے نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ ختم نبوت کی محافظ ہے۔ بہت غیر معمولی صورتحال ہمیں پیش آئی۔ دھرنے والوں کا مقصد حکومت کو غیر مستحکم کرنا تھا جس نہج پر سازش پہنچ گئی تھی، اس کو نمٹانا ضروری تھا۔ دھرنا ختم نہ کراتے تو مختلف مسالک کے درمیان فسادات شروع ہوسکتے تھے۔ معاہدہ کسی میرٹ پر نہیں کیا گیا۔ حکومت معاہدہ قانون کے مطابق کرتی ہے، معاہدے میں درج ہے تمام کارروائی ضابطے کے تحت ہوگی۔ حکومت ایسا معاہدہ نہیں کرسکتی جو آئین پاکستان کے خلاف ہو۔ بیس روز کے دھرنے نے پاکستان کے تشخص کو متاثر کیا ہے۔ اگلے 6 ماہ دوبارہ پاکستان کے امیج کو بہتر کریں گے۔ پاکستان میں مسالک کی بنیاد پر فساد پیدا کرنے کی منصوبہ بندی تھی۔ معاہدے پر ہماری طرف سے تحفظات تھے۔ دھرنے والوں کے عمل کی وجہ سے ایسا معاہدہ کرنا پڑا۔ آنے والے دنوں میں ان کی قوت میں نمایاں کمی ہوگی۔ ان کا ایجنڈا مسلم لیگ ن کو نقصان پہنچانا تھا۔ زاہد حامد کا کوئی قصور نہیں تھا انہوں نے رضاکارانہ طورپر استعفیٰ دیا۔