اسلام آباد ( وقائع نگار+ ایجنسیاں) سپریم کورٹ نے وفاقی ترقیاتی ادارے کو اسلام آباد سے تجاوزات کے خاتمے، زون تھری اور نیشنل پارک ایریا کی حدبندی کے حوالے سے ایک ہفتے کی مہلت دیتے ہوئے سماعت 4دسمبر تک ملتوی کردی۔ اسلام آباد میں تجاوزات کے حوالے سے مقدمے کی سماعت عدالت عظمٰی کے دورکنی بنچ میں شروع ہوئی تو وفاقی ترقیاتی ادارے کے وکیل، ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو طلب کر رکھا تھا مگر وفاقی وزیر کیپیٹل ایڈمنسٹریشن طارق فضل چودھری بھی عدالت میں پیش ہوگئے۔ وفاقی ترقیاتی ادارے کے وکیل نے عدالت کو صورتحال سے آگاہ کرنا چاہا لیکن اس سے پہلے ہی جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ عدالتی حکم پر عمل نہیں کیاگیا۔تجاوزات والوں سے پیسے لے کر واپس آجاتے ہیں، وکیل نے کہاکہ اب سی ڈی اے پر زیادہ کام کرنے کا الزام لگتاہے، آپریشن کرنے والوں کو پھٹے سروں کے ساتھ عدالت لائیں گے تب عدالت کو یقین آئے گا۔جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ ہم توہین عدالت کی کارروائی کریں گے، کیا وفاقی حکومت دارالحکومت میں موجود ہے؟ کیا پاکستان میں وفاقی حکومت ہے؟۔ وفاقی ترقیاتی ادارہ موجود ہے اور نہ پولیس، نہ ہی ریونیواتھارٹی ہے۔ ہم عدالتی حکم پر عمل کا پوچھ رہے ہیں کیا اس کیلئے بھی کوئی معاہدہ کریںگے، مارگلہ نیشنل پارک کے اندر تجاوزات ہیں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ ہر سماعت پر نئی تجاوزات سامنے آتی ہیں۔ جسٹس عظمت نے کہاکہ تجاوزات کیوں نہیں ہٹاتے؟ قانون بنائیں کہ جس کا جو جی میں آئے کرے، جہاں دل کرے عمارت کھڑی کردے کوئی نہیں روکے گا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ تجاوزات کے خلاف قوانین بنائے ہیں تو عمل کریں۔ وکیل نے بتایا کہ گزشتہ پندرہ دنوں سے پولیس دستیاب نہیں تھی اس لیے تجاوزات کے خلاف آپریشن نہ ہوسکا،سی ڈی اے کے افسر اتنے طاقتور نہیں کہ خود سے کارروائی کرسکیں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ جہاں پولیس موجود تھی وہاں کیا کرلیا۔ وکیل نے بتایا کہ تجاوزات کرنے والے سخت مزاحمت کرتے ہیں پولیس کے بغیر آپریشن ممکن نہیں۔جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ آخر میں آپ یہی کہیں گے کہ دھرنے کی طرح فوج بلائی جائے۔ وکیل نے کہاکہ عدالتی حکم میں ایک چھوٹا سا سقم ہے جس پر جسٹس عظمت نے کہاکہ ہمارے حکم نامے کوساس کی طرح نہ دیکھیں۔ جسٹس عظمت نے کہاکہ تجاوزات ختم نہ ہونے کی وجہ میں بتاتا ہوں آپ پتہ کرائیں کہ پلازے کس کے ہیں تو معلوم ہوجائے گا، کہہ دیں کہ پاکستان کا قانون لاگونہیں ہوتا، پھر گھر جائیں۔کچھ تھوڑا سا تو ریاست پاکستان کا بھرم رہنے دیں۔ وکیل نے کہاکہ تیس چالیس سال کی کوتاہیاں ہیں درست کرنے میں وقت لگے گا۔ جسٹس عظمت نے کہاکہ سیٹلائٹ تصاویر دیکھی ہیں آٹھ ماہ میں کتنی تجاوزات ہوگئی ہیں۔اگر نہیں کرسکتے تو چھوڑ کرچلے جائیں پھر ہم جانیں اور قانون کا اطلاق۔ وزارت کیڈ (کیپٹل ایڈمنسٹریشن ) کا سیکرٹری کون ہے؟۔ عدالت میںکھڑے وزیر برائے وفاقی شہری انتظامیہ طارق فضل بولے کہ میں خود پیش ہواہوں، جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ ہم نے آپ کو نہیں بلایا،ہم منتخب کونسلر کی بھی عزت کرتے ہیں، بیورو کریسی کو نوٹس کرکے کام کا پوچھتے ہیں۔ وفاقی وزیر طارق فضل نے کہاکہ اسی علاقے سے منتخب ہوا ہوں، یہ میرا شہر ہے۔ جسٹس عظمت نے کہاکہ رک جائیں، یہ میرا بھی شہر ہے، جوانی میں مارگلہ ہلز پر بہت آوارہ گردی کی ہے۔ طارق فضل چودھری بولے کہ دس لاکھ کی دیہی آبادی کو بہتر کرنے کی کوشش کررہے ہیں، ستائیس یونین کونسل دیہات پر مشتمل ہیں، گلیاں ٹوٹی ہوئی ہیں، نکاسی آب کا نظام موجود نہیں۔ جسٹس اعجازالاحسن فورا گویا ہوئے کہ یہ کیا بات کر رہے ہیں، آٹھ سال سے یہ شہر آپ کے پاس ہے، آپ نے کیا کیاہے؟۔ جسٹس عظمت نے کہاکہ ایک شہر میں دو شہر بسائے ہوئے ہیں، ایک افسروں کا شہر ہے دوسرا عام لوگوں کیلئے۔ وفاقی وزیر بولے کہ مجھے دو منٹ سن لیں، دیہی علاقوں کی بات کر رہا ہوں، سہالہ، روات کو بہتر بنانے کیلئے منصوبہ ہے۔جسٹس عظمت نے کہاکہ ہم مارگلہ ہلز، بفرزون اور زون تھری کی بات کررہے ہیں۔ وزیر نے جواب دیاکہ زون تھری کیلئے قانون انیس سو ترانوے کا ہے اس وقت یہ نہیں دیکھا گیاکہ آدھا بارہ کہو پانچ سو سال سے آباد ہے،مسائل موجود ہیں اب قوانین کو دیکھتے ہوئے لوگوں کا بھی خیال کرناہے۔ جسٹس عظمت نے طارق فضل کو معنی خیز انداز سے دیکھا اور مسکراتے ہوئے بولے کہ آپ کی مصروفیات کچھ اور ہیں، تھوڑا سا وقت نکال لیں، اپنے ہی قانون پر عمل کرلیں، تیس سال کا ملبہ آپ پر ہی گرے گا، اس لیے نہیں کہ یہ الزام ہے، اس لیے کہ ثبوت بھی موجود ہیں کہ تجاوزات نہیں ہٹائی جاسکیں۔ کیا ہم جج جاکر خالی کرائیں، یہ حکومت کاکام ہے۔ عدالت کا یہ کام ہے کہ قانون پر عمل کرایا جائے، نہیں ہوگا تو ذمہ داری عائد کریں گے، جب آپ لوگ سیاسی مخالفت پر پکڑ کر اندر کیے جاتے ہیں تو پھر ہمارے پاس آتے ہیں، آج کل آپ فل ٹائم سیاست کررہے ہیں، جانتے ہیں کہ آپ کی مجبوری ہے۔ اس دوران وفاقی وزیر طارق فضل روسٹرم پر کھڑے مسکراتے رہے۔ اس لیے جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ آپ سمجھ رہے ہیں کہ ہم کیا کہہ رہے ہیں۔ اگر اس کام میں کوئی کمی کوتاہی ہوئی تو انگلیاں آپ پر اٹھیں گی کیونکہ آپ نے علاقے میں جانا ہے، معاملات سیاست دانوں کے ہاتھ میں اس لیے دیے جاتے ہیں کہ بیوروکریسی کا عوام سے اس طرح رابطہ نہیں ہوتا، سیاست دان مسائل کے حل کیلئے لوگوں کے پاس جاتے ہیں، سمجھتے ہیں کہ آپ کیلئے یہ مشکل کام ہے کہ آپ کاحلقہ ہے لوگوں کے پاس جانا ہے، اس لیے آپ احتیاط کر رہے ہوں گے، باقی چیزوں میں بھی احتیاط کریں، بے احتیاطی صحت کیلئے مضر ہے، ریاست کی صحت کیلئے بھی بے احتیاطی اچھی نہیں۔ پھر کہاکہ سمجھ رہے ہوں گے میرا کیا مطلب ہے۔ وفاقی وزیر نے سر ہلایا اور استدعا کی کہ ایک ہفتے کی مہلت دی جائے تاکہ تجاوزات کے خاتمے کیلئے ایکشن پلان بناکر عدالت کو آگاہ کرسکیں۔ مقدمے کی سماعت سات دسمبر تک ملتوی کر دی گئی۔ سیاست کے سوا بھی حکومت کی کئی ذمہ داریاں ہیں‘ کیا غیرقانونی تعمیرات ہٹانے کیلئے بھی حکومت معاہدہ کریگی۔ عدالت حکومت پر اعتماد کرتی ہے، حکومت شاید عدالت پر اعتبارکرنے کو تیار نہیں‘ ریاست کی رٹ وفاق میں سب سے زیادہ ہوتی ہے پاکستان میں وفاقی حکومت کہیں نظر نہیں آرہی، جوکام نہیں کر سکتے استعفیٰ دیدیں۔ جس دن میں کام نہ کرسکا استعفیٰ دے دوں گا۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ غیرقانونی پلازوں کے مالکان کا پتہ کریں، کارروائی نہ ہونے کی وجہ سامنے آجائے گی، آپ آئے ہیں ہم آپ کو سن لیں گے، کیا غیرقانونی تعمیرات ہٹانے کیلئے بھی حکومت معاہدہ کریگی۔