حکومت کے سو دن مگر بھانڈا کس کا پھوٹا؟

Nov 30, 2018

احمد جمال نظامی

موجودہ حکومت کے 100دن مکمل ہونے پر اپوزیشن کی جماعتوں کی طرف سے شدید احتجاج سامنے آیا ہے اور شاید وطن عزیز کی تاریخ میں یہ پہلی حکومت ہے جسکے ابتدائی سو ایام کو اتنی زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ تحریک انصاف کی موجودہ حکومت کے بارے میں اپوزیشن اور ناقدین جیسی مرضی رائے قائم کریں لیکن اس حقیقت کو بہرحال تسلیم کرنا پڑیگا کہ خارجی محاذ پر وزیراعظم عمران خان نے پاکستان کے سوفٹ اور مثبت امیج کو اجاگر کیا ہے جبکہ بیشتر ممالک میں پاکستان کے دوستانہ تعلقات ازسرنو ہموار ہو رہے ہیں۔ وزیراعظم کی حیثیت سے عمران خان نے سب سے پہلا غیرملکی دورہ سعودی عرب کا کیا۔ اس دوران سعودی عرب میں عمران خان کو ملنے والی پذیرائی کا دنیا بھر میں چرچا ہوا اور بلخصوص بین الاقوامی میڈیا نے پاکستانی وزیراعظم عمران خان کے اس دورے کو خصوصی طور پر اجاگر کیا۔ اس کی کئی وجوہات تھیں مگر سب سے بڑی وجہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی حکومتی انتظامیہ کی طرف سے بار بار سعودی عرب کو صحافی جمال خاشقجی کے قتل کیس اور مختلف ایشوز کی بنیاد پر تنقید کا نشانہ بنانا تھا لہٰذا سعودی عرب میں پاکستان جسکے بارے میں بار بار غیرملکی مبصرین یہ تبصرے اور تجزیے کرتے نہیں تھک رہے تھے کہ پاکستان بین الاقوامی سطح پر امریکی بلاک سے باہر نکل رہا ہے۔ اس دورے کی اہمیت نے بین الاقوامی میڈیا میں اس کی اہمیت کو مزید دوچند کر دیا ہے اور ویسے بھی سعودی عرب کا دورہ پاکستان کیلئے کسی طور پر گھاٹے کا سودہ نہیں رہا۔ سعودی عرب نے پاکستان کو تین ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج دینے کا اعلان کیا جس میں سے سٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق ایک ارب ڈالر پاکستان کو حاصل ہو چکا ہے اسکے علاوہ سعودی عرب پاکستان کو تین سالوں میں 9ارب ڈالر کا ادھار تیل دیگا۔ معاشی و اقتصادی تجزیہ نگاروں کے مطابق پاکستان کی حکومت پٹرولیم مصنوعات پر جتنا ٹیکس وصول کر رہی ہے اس حساب سے پاکستان سعودی عرب کو تین سالوں بعد 9ارب ڈالر واپس کرنے کی صورت میں بھی حکومتی اخراجات کی مد میں اس 9ارب ڈالر کی نصف رقم پاکستان میں استعمال کر سکے گا۔ سعودی عرب کے بعد وزیراعظم نے پاکستان کے دیرینہ دوست ملک چین کا دورہ کیا۔ چین اور پاکستان کی دوستی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ماضی میں امریکی سفیر ہنری کسنجر کو چین کا دورہ کروانے کے بعد سے پاکستان اور چین کے تعلقات مضبوطی سے قائم ہیں جبکہ پاک چین دوستی کی تاریخ سوسال سے زائد دریائی تہذیب پر بھی محیط ہے۔ چین میں بھی وزیراعظم عمران خان کو خصوصی پذیرائی حاصل ہوئی۔ سی پیک کے حوالے سے چین مطمئن ہوا کہ پاکستان کے موجودہ وزیراعظم کا وژن بین الاقوامی تناظر میں اپ ٹو ڈیٹ ہے اسکے علاوہ چین نے اپنی اعلیٰ بیوروکریسی کی ایک ورکشاپ نما سیمینار میں عمران خان کو بطور مہمان خصوصی سپیکر مدعو کر کے یہ ثابت کیا کہ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ عمران خان میں قابلیت موجود ہے۔ چین اور سعودی عرب کے بعد وزیراعظم عمران خان نے ابوظہبی اور ملائیشیا کا بھی دورہ کیا ہے۔ اطلاعات کیمطابق ابوظہبی کے ساتھ پاکستانی حکام کے وہاں موجود پاکستانیوں کے سرمائے اور جائیداد کی تفصیلات کے حوالے سے اہم معاہدہ ہو رہا ہے جس کے تحت پاکستان مکمل رسائی حاصل کرتے ہوئے آئندہ منی لانڈرنگ کے بڑے سکینڈلز کو بے نقاب کرتے ہوئے ان کے خلاف کارروائی کر سکے گا جبکہ ملائیشیا جس کے بارے میں عمران خان گزشتہ کئی سالوں سے اپنی مختلف تقاریر میں گفتگو کرتے آ رہے ہیں کہ وہ ملائیشین ماڈل سے بہت زیادہ متاثر ہیں۔ ملائیشیا کی بغیر کسی عالمی مالیاتی ادارے کے ترقی اور ملائیشیا میں کرپشن کے خلاف اقدامات عمران خان کی اکثر گفتگو کا محور رہے ہیں۔ عمران خان اور ملائیشین صدر مہاتیر محمد کے درمیان پرانے دوستانہ تعلقات ہیں۔ مہاتیر محمد اور عمران خان کے درمیان ملائیشیا میں خوشگوار انداز میں ملاقات رہی۔ ملائیشیا نے ماضی میں پاکستان کے ایک وزیرخزانہ کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے قربانی دے کر عالمی مالیاتی اداروں سے آزادی حاصل کی تھی اور پھر مہاتیرمحمد جنہیں عالمی سطح پر عالم اسلام قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے انہوں نے ملائیشیا میں کرپشن کے خاتمے اور ٹورازم سمیت کئی شعبوں کو فروغ دیکر ملائیشیا کو خودانحصار معیشت کے ستونوں پر کھڑا کیا اور آج ایشیا میں ملائیشیا ماڈل کی ترقی کا شاید کوئی دوسرا ملک ثانی نہیں۔ عمران خان نے اپنے دورے کے دوران مہاتیر محمد سے کرپشن کے خاتمے اور پاک سرزمین پاکستان کو عالمی مالیاتی اداروں کے شکنجے سے آزاد کرنے کیلئے خصوصی معمولات شیئرنگ کی بات کی جسے مہاتیر محمد نے قبول کر لیا ہے۔ لہٰذا یہ بات اظہرمن الشمس ہے کہ پاکستان جسے سابقہ حکومت نے عالمی سطح پر تنہائی کا شکار کر رکھا تھا آج وہ صرف موجودہ حکومت کے سو دنوں میں کئی اہم ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات مضبوطی کے ساتھ بحال کر چکا ہے۔ یہ سفر حکومت کو جاری رکھنا ہو گا اسی سفر کا یہ نتیجہ ہے کہ گزشتہ روز جب ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کیخلاف ایک مرتبہ پھر ہرزہ سرائی کی تو وزیراعظم نے دوٹوک انداز میں ٹرمپ کو جواب دیا جسکے بعد پاکستان میں امریکی سفیر کو حکومت سے معذرت کرنا پڑی۔ لیکن تحریک انصاف، اسکے وزرائ، وزیراعظم عمران خان اور حامیوں کی اس بات پر کم از کم اکتفا کرنا چاہیے کہ قربانی دینی پڑیگی اور حقیقی تبدیلی یعنی خوشحالی آنے میں کچھ وقت لگے گا۔ جہاں تک سابقہ حکومت کی خوشحالی کا تعلق ہے تو موجودہ حکومت کے ابتدائی سو ایام میں سامنے آنے والے مسائل اور مشکلات اس کا بھانڈا پھوڑ دیتے ہیں۔

مزیدخبریں