مکرمی! لفظ روئیے کسی مخصوص صورتحال پر رد عمل دینے کا نام ہے۔ روئیے شخصیت کا پتہ دینے میں موثر کردار ادا کرتے ہیں۔ رویوں میں تبدیلی آنا ایک قدرتی عمل ہے، ایک شخص کی پرورش، ماحول اور علم اس روئیے پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ ایک ایسی صورتحال جس میں ایک شخص آپے سے باہر ہو جائے، ایسی حالت میں مثبت رویہ اختیار کرنے کی تلقین ہمیں ہمارا دین کرتا ہے مگر آج کی اس دنیا میں دین کی اس تلقین پر عمل پیرا ہونے کو دن بدن مشکل تر بنایا جا رہا ہے حالانکہ یہ منفی رویہ ہے جسے معاشرے میں عمل پیرا کرنے کی کوشش جاری ہے۔یوں تو ہم دوسروں کی باتوں پر تنقیدی مظاہرے کرتے ہیں کہ فلاں نے یہ کیا، فلاں نے وہ کیا، مگر اس بات پر غور نہیں کرتے کہ ہم نے خود کیا کیا؟ دوسروں کے غلط ہونے پر انکی اصلاح کرنا ہماری ذمہ داری ہے مگر ہم انکی غلطی پر ان کو تنقید کا نشانہ بنا کر انکے منفی عمل پر اپنا منفی رویہ دکھاتے ہیں۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ ہم انکی اصلاح کریں اور مثبت روئیے سے انکے منفی اعمال میں سدھار لائیں اور اپنے گریبان میں جھانک کراپنی اصلاح بھی کریں۔ہم نے تنقید کا یہ لائحہ عمل حکومت کے معاملے میں بھی اپنا رکھا ہے، لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ جمہوری حق ہے اور اس کی آڑ میں حکمرانوں کی سیاسی زندگیوں کے ہمراہ انکی نجی زندگیوں کو بھی تنقید کی نذر کردیتے ہیں۔ذرا سوچئے ان حرکات سے ہم جمہوریت کو فروغ نہیں دے رہے بلکہ اپنی جاہلیت کا عملی نمونہ پیش کر رہے ہیں۔ (عائشہ عامر بٹ… لاہور )