مائے نی میں کہنوں آکھاں درد وچھوڑے دا حال

96 برس ماں کی عمر تھی۔ میں نے عمر بھر کبھی نہیں دیکھا کہ وہ کبھی بیمار ہوئی ہو۔ اسے بخار ہوا ہو یا کھانسی ہی لگی ہو۔ آخری دنوں میں ہسپتال بھی اسے ہم اس لئے لے گئے کہ اس کے بغیر چارہ نہ تھا وہ وہاں ہر وقت بہنوں سے کہتی رہتی کہ میں نے اجمل کے پاس جانا ہے۔ اپنی بہو میری بیوی رفعت کو بھی بہت یاد کرتی رہتی۔ وہ اپنی زندگی میں زیادہ عرصہ میرے پاس رہی۔ سب بہنیں، بھائی میرے گھرآتے تھے۔ اب کون آئے گا۔ میرا بھائی اکبر، اصغر، ساری بہنیں کنیز، بتول، منزہ، تسنیم، کلثوم، حمیرا، میری بیوی رفعت‘ سب سے بڑے کمرے میں اس کی چارپائی تھی۔ ساتھ ہی کچن بھی تھا اور صحن میں ہم سب بہن بھائی اور ملنے کے لئے آنے والے سب رشتہ دار، دوست اس کمرے میں امی کے پاس آکے بیٹھتے۔ بہت رونق لگتی، گپ شپ، پرانے دنوں کی یادیں، بار بار دہرائی جاتیں۔ صرف یہ ذکر ہے جس سے آدمی اکتاتا نہیں ہے۔ میری عمر بھی 70 برس سے زیادہ ہے۔ مگر باتوں کا جتنا مزا ماں کی زبان سے آتا تھا۔ وہ اب صرف ایک یاد بن کے رہ گیا ہے۔
میں کیسے کہہ دوں کے ماں مر گئی ہے۔ وہ کہیں چلی گئی ہے۔ بس یہ کہ وہاں سے واپس نہ آئے گی۔ ہمیں ہی اس سے ملنے کے لئے وہاں جانا ہو گا۔ کیا جگہ ہے وہ سب وہاں جاتے ہیں اور واپس نہیں آتے۔ وہاں اپنی مرضی سے کوئی نہیں جاتا۔ کس کی مرضی چلتی ہے؟ ہم سب ایسے موقعوں پر کہتے ہیں صبر کرو۔ اللہ کی مرضی۔ کیا بات ہے کہ اس بات میں ہر بات ایمان اور یقین کی طرح دھڑکتی ہے۔ عجیب صبر اس بات میں ہے۔ یہ بات مجھے کہنا چاہئے کہ نہیں کہ صبر ہی میں شکر ہے اور شکر میں صبر ہے۔ زندگی میں ہر دکھ سکھ اور خوشی غم کو صبر شکر کی طرح گزار دینا چاہئے۔ اس کیفیت میں کوئی راز ہے، ایک قوت ہے جو ہر وقت ساتھ ساتھ رہتی ہے۔
میرا کوئی دوست گھر آتا، میری کوئی سٹوڈنٹ آتی تو اتنی شفقت ساتھ لے کے جاتی کہ اس سے سنبھالی نہ جاتی۔ امی ہر کسی کو اتنی دعائیں دیتی کہ کوئی شمار نہ کر سکتا۔ ایک بچی کہنے لگی کہ اتنی دعائیں تو ہمیں عمر بھر نہ ملی ہونگی۔ ہر ماں شفقت کا ایک خزانہ ہوتی ہے۔ میری ماں یہ خزانہ بانٹ بانٹ کے تھکتی نہ تھی اور یہ خزانہ کبھی کم نہ ہوا تھا۔ سب بہنیں، بھائی، رشتہ دار ماں کی باتیں کرتے نہیں تھکتے تھے۔ روتے ہیں اور ماں کی باتیں کرتے ہیں۔
میرے عزیز اور دوست عمیر خالد کے ساتھ امی کا بہت پیار تھا۔ اپنے بچوں کی طرح۔ میرے سارے دوستوں کے ساتھ امی کی محبت تھی۔ عمیر اور اس کی اہلیہ مائرہ بیٹی نے ام نصرت فاؤنڈیشن بنائی ہوئی ہے۔ یہاں تھیلیسیمیا، ہیموفیلیا اور بلڈ کینسر کے مریض بچوں کو تازہ خون لگایا جاتا ہے۔ میری امی خاص طور پر ان بچوں سے ملنے کے لئے ام نصرت فاؤنڈیشن کے دفتر میں تشریف لے گئی تھیں۔ وہ عمر کے ایسے حصے میں تھیں کہ سب لوگ ان کے لئے بچوں کی طرح تھے۔
عمر بھر ان کی نماز قضا نہیں ہوئی۔ میں نے جب سے ہوش سنبھالا ان کو دعائیں دیتے ہوئے اور درود شریف پڑھتے ہوئے دیکھا اور سنا۔ وہ میری ماں تھیں اور اب فوت بھی ہو گئی ہیں۔ وہ بہت نورانی اور روحانی چہرے کی خاتون تھیں۔ بہت خوبصورت جذبے والی تھیں۔ بعد از وفات ان کے چہرے پر بھی مقدس خوبصورتی وجد کر رہی تھی۔ قبر میں ا تارنے کے بعد مٹی کی مٹھی ان کی قبر پر ڈالی جاتی ہے۔ مجھ سے یہ نہ ہو سکا تھا تو کسی نے میرے ہاتھ میں مٹی کی مٹھی رکھ دی۔ جو میں نے امی مرحومہ کے حوالے کر دی۔ میں مرحوم دوست، رشتہ دار کا مرنے کے بعد منہ نہیں دیکھتا۔ پھر ساری عمر یہی چہرہ آنکھوں میں چھایا رہتا ہے۔ مگر امی کا چہرہ اور وفات کے بعد اس کا چہرہ ایک جیسا تھا۔ وہی شفافیت، وہی نرمی، وہی حسن و جمال کی روشنی بکھر رہی تھی اور نکھر رہی تھی۔ میں نے بڑی دیر تک انہیں دیکھا۔ دیکھتا رہا۔ مجھے محسوس ہوا کہ ابھی وہ آنکھیں کھول کر مجھے دیکھیں گی اور میں بھی اپنے آپ کو دیکھ لوں گا۔ شاید ایسا ہوا ہو۔ مگر مجھے پتہ نہیں چلا۔
علامہ اقبال کی نظم
’’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ مجھے یاد ہے مگر آج بھول گئی تھی۔ میں اسے پھر سے یاد کرنے کی کوشش کروں گا اور تب اس لازوال نظم کے کچھ اشعار آپ کو بھی سناؤں گا۔ ہم ماں کو اپنے موسیٰ خیل لے گئے۔ وہاں سب لوگ تھے۔ برادرم ضیاء اللہ خان نے بہت خدمت کی۔ وہ سارے خاندان کا خدمت گزار ہے۔
دو ہی رشتے زندگی میں ہیں۔ ایک خدا کا اور دوسرا ماں کا۔ جب بھی آدمی کسی مشکل میں پھنستا ہے تو خدا یاد آتا ہے یا ماں یاد آتی ہے۔ ماں بچھڑ گئی ہے۔
مائے نی میں کہنوں آکھاں درد وچھوڑے دا حال

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...