1971ء جوانی کی حدوں کو چھوتا ہوالڑکپن تھا کہ ایف اے کا امتحان پاس کرلیا ۔پورے ملک میں ایک روز اخبار کے ذریعے معلوم ہواکہ دو لڑکوں کو پاک فوج میں سیکنڈ لیفٹینٹselect کیاگیا ہے۔مزید معلوم ہواکہ دونوں اس سے قبل پاک فوج کی طرف سے قائم کردہ "نیشنل سروس" (N.S) سے تعلق رکھنے والے پہلے بیج سے تھے اور اسی بنیاد پر وہ براہ راست سکینڈ لیفٹیننٹ بن گئے ہیں۔فوج میں کمشن لینے کا خواب تو ہر نوجوان دیکھتا ہے ،ہم نے جب یہ خبر گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ کی کنٹین پر پڑھی تودل مچلنے لگ گیا کہ کاش اس طرح ہمیں بھی لیفٹینی مل جائے ۔پھرایک ر وز معلوم ہواکہ فوج کی ایک ٹیم N.Sکے دوسرے بیج کی بھرتی کیلئے آئی ہوئی ہے ۔ہجوم درہجوم ہم طلباء جنہوں نے ایف اے پاس کرلیا تھا،سیشن کورٹ کے قریب اس بلڈنگ میں پہنچ گئے جہاں آجکل بینکینگ کورٹ نمبر1ہے۔یہاں ایک میجر صاحب اور انکے اسسٹنٹ ایک بنگالی کپتان ایک فوجی کیپٹن ڈاکٹر کے ہمراہ میڈیکل ٹسٹ لے رہے تھے۔ہم میں سے جن جن نے یہ مرحلہ طے کیا وہ خوش تھا کہ اب لیفٹینی قریب تر ہورہی ہے۔پھر انٹرویو کا مرحلہ ختم ہونے کے بعد معلوم ہوا کہ یہ اتنا آسان کام نہیں ۔فوجی بننے اور وہ بھی ایک لیفٹیننٹ،خاصا مشکل کام ہے ۔بہرحال ہم کچھ لوگ N.S کیلئے منتخب ہوگئے۔ اکتوبر71میں کسی تاریخ کو سیالکوٹ میں ٹریننگ کا پروانہ ملا۔وہ چند دن بہت بے کلی کے تھے جو سیالکوٹ جانے کے انتظار میں گذرے۔ہر وقت خود کو سیکنڈ لیفٹیننٹ ہی سمجھا بس اب وردی کاانتظار باقی رہ گیا۔پھر ایک روزاباجی مجھے ،طارق بٹ اور سول لائن چوک کے انجم خاں کو سیالکوٹ چھائونی چھوڑ آئے۔شام کا وقت ہوچکا تھا۔بارکیں بستر،مگے، پلیٹیں،بوٹ جرابیں اور وردی وغیرہ الاٹ ہوئی۔صبح اٹھے تو معلوم ہواکہ اب ہم پاک فوج کی 35پنجاب رجمنٹ کے رنگروٹ ہیں۔رات بھرخوشی سے سو نہ سکے ۔ساری رات باہم تعارف میں گذر گئی زیادہ تر سرگودھا ،جھنگ ،چنیوٹ اور گوجرانوالہ سے تھے۔سرگودھا کے دراز قد مصطفے،سجیلا نوجوان جاوید باجوہ ،بشیر اور مصدق ابھی بھی یاد آتے ہیں۔ان میںسے جاوید باجوہ سے آخری بار پنجاب یونیورسٹی میں ملاقات رہی جب وہ کسی شعبے سے ماسٹر ز کررہے تھے ۔گوجرانوالہ کے صباح الدین قریشی اور پھر چنیوٹ کے ملک رب نواز جو آج کل چوٹی کے وکیل ہیں اس جنگجو یانہ تربیت میں بارکوں سے لے کرمورچوں تک کے ساتھی رہے۔گوجرانوالہ سے سابق ایم ۔پی ۔اے مہر سلیم بھی تھے مگر وہ 35پنجاب کی بجائے میڈیکل کورمیں تھے۔سب سے دلچسپ اور ہنس مکھ ہمارے ساتھی گوجرانوالہ کے نواز چیمہ تھے۔تربیت کی سختیوں کو زعفران زار بنا دیا۔ 35پنجاب سیالکوٹ چھائونی میں جہاز گرائونڈ کے سامنے کوٹلی بہرام کے قریب واقع تھی۔کرنل فرید ملک ہمارے کمانڈنگ آفیسر (CO)تھے۔ان کے ساتھ میجر قیوم ،میجر افضال ،میجر جاوید جہاں،کیپٹن کیانی اور لیفٹینٹ غفور کے علاوہ ایک بہت دلچسپ اور دلیر صوبیدار ملک غلام محمد تھے جنہوں نے کمانڈو کورس کیا ہواتھااور ہم بڑی دلچسپی سے کمانڈوز کی کہانیاں بھی ان سے سنتے رہتے ۔صوبیدار صاحب C.O،کرنل فرید ملک کے چھوٹے بھائی تھے۔ جب ٹریننگ کا آغاز ہوا تو لیفٹینی کاسارا شوق ہوابن کے اڑگیا۔اتنی کڑی تربیت کا سنا تو تھا کبھی واسطہ نہیں پڑا تھا،اب جو اس کا حصہ بنے تو معلوم ہواکہ ہم سے یہ شائد سب کچھ نہیں ہوسکے گا۔صبح ایک سیٹی پر اٹھنا یونیفارم پہننا،دوران تربیت دیئے گئے اسباق ازبر کرنا لمبی دوڑیں لگانا ،قدم سے قدم ملاکرچلنا ،تیر کی طرح سیدھاہوکر پریڈ کرنا ،بازو سے بازو ملاکر دائیں یا بائیں مڑنا ،وقت پر اٹھنا ،وقت پر کھانا ،وقت پرکھڑے ہونا،وقت پر بیٹھنا ،سخت سردیوں میں رات رات بھر ڈیوٹی دینا،یہ سب کچھ عجیب سالگتا تھا۔وقت گذرتا رہا موسموں اور مہینوںمیں تبدیلی آتی رہی اور ہمارا جسم وجاں بھی اس کا عادی ہوگیا۔پھر یونٹ کا ہرکونا اور ہر چیز اچھی لگنے لگی۔اپنے افسروں اور ساتھیوں سے پیار ساہوگیا۔اتنی باہمی محبت شائد زندگی کے کسی دیگر شعبے میں پائی جاتی ہو جتنی فوج کے ساتھیوں میں ہوتی ہے۔ہندوستان سے جنگ جاری تھی مگر مشرقی پاکستان کا محاذ زیادہ گرم تھا اور ہم مغربی پاکستان کا دفاع کررہے تھے۔یہیں ہمیں سقوط مشرقی پاکستان کی منحوس خبر ملی دل بجھ ساگیا۔لیکن فوج میں آنسو بہانا منع ہے۔جی کڑاکرکے جینا پڑتا ہے۔ مورال بلند رکھنا پڑتا ہے اور ہم نے بھی یہی کچھ کیا۔دیکھتے ہی دیکھتے یحی خاں سے استعفے لے لیا گیا اور ذوالفقار علی بھٹو صدر پاکستان اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن گئے ۔35پنجاب رجمنٹ پھر 55 پنجاب رجمنٹ میں بدل گئی نئے کمانڈنگ آفیسر کرنل اقبال قریشی آگئے۔ان کا بیٹا بھی نیا نیا سیکنڈ لیفٹیننٹ بن کر 55پنجاب رجمنٹ میں اپنی خدمات سرانجام دینے پہنچ گیا۔یہ فوجی زندگی ایک ڈھب پر چل رہی تھی کہ اچانک ایک روز اطلاع ملی کہ "نیشنل سروس"ختم کردی گئی ہے۔ دور وز میںچھا ئونی سے واپسی قرار پائی۔پھر (N.S)کو (N.C.C)نیشنل کیڈٹ کور کی شکل دیکر کالجوں میں رائج کیا گیا۔ مگر وہ بات جو چھائونیوں جنگلوں ،کمبلوں اور لنگر وں میں تھی وہ کالجوں میں کہاں۔ وقت کس طرح پر لگا کر اڑتا پتہ ہی نہ چلا۔سب کچھ کل کی بات لگتی ہے ۔کچھ چلے گئے کچھ باقی ہیں مگر ایک دوسرے کی محبتوں کو سینے سے لگائے ہوئے۔