مسئلہ کشمیر کی تازہ ترین صورتحال مقبوضہ کشمیر کے عوام کے لئے نا قابل برداشت ہے۔ کشمیری بھارت کے نئے اقدامات کو یکسر مسترد کر چکے ہیں۔ بھارتی آئین میں دی گئی خصوصی حیثیت ختم کر کے مقبوضہ کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا جو براہ راست دہلی اور افواج کے کنٹرول میں رہیں گے۔ تمام شاہراہوں اور پبلک مقامات کے نام ہندوئوں کے ناموں سے منسوب کیے جا رہے ہیں۔ غیر مسلموں کو بسا کر جائیدادیں الاٹ کر کے مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلا جائے گا اور ان کو کاروبار کے لئے خصوصی سہولتیں مہیا کی جائیں گی۔ اصل مقصد کشمیری مسلمانوں کی شناخت ختم کرنا ہے۔ مزید ایسے اقدامات کیے جا رہے ہیں جو نا قابل قبول ہیں۔ حریت رہنماء سید علی گیلانی ، میر واعظ عمر فاروق ، یٰسین ملک سمیت بھارتی نواز کشمیری قیادت نے بھی ان سب اقدامات پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ سید علی گیلانی نے عمران خان کے نام خط میں تو بھارت سے تاشقند اور شملہ معاہدہ سمیت تمام معاہدوں کو ختم کرنے کی سفارش کی ہے۔
جہاں تک کشمیری پالیسی کا تعلق ہے پاکستانی وزیر اعظم عمران خان، ملکی اداروں اورعوام نے بھارتی اقدامات کے خلاف پوری دنیا میں جارحانہ انداز میں کشمیر پالیسی پر بھارت کو ٹف ٹائم دیا ہے۔ UNO اور دنیا سے بھر پور حمایت حاصل کی ہے۔ بھارت کے اندر سے بھی مودی حکومت کے خلاف آوازیں اٹھ رہی تھیں اور مودی حکومت کو بھارت سمیت پوری دنیا میں ہزیمت کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا لیکن مولانا فضل الرحمن اور اپوزیشن کے آزادی مارچ نے کشمیر پالیسی کو جھٹکا دیا اور پوری دنیا اور پاکستانی عوام کی نظریں آزادی مارچ کی جانب مبذول ہو گئیں اس سے مودی حکومت اور بھارتی میڈیا نے خوب فائدہ اٹھایا۔اس نے آزادی مارچ کو اچھالا اور کشمیر کاز کو شدید نقصان پہنچا۔ اب جبکہ آزادی مارچ سمیت تمام معاملات درست ہو رہے ہیں۔ حکومت کو ایک بار پھر تمام کشمیری قیادت کو اعتماد میں لے کر ایک بار پھر جاندار اور مضبوط کشمیر پالیسی اپنانا ہو گی۔ بہتر سفارتکاری کے ذریعے اقوام متحدہ سمیت پوری دنیا کو بھارتی اقدامات اور سفاکانہ طرز عمل کو اجاگر کرنا ہو گا۔ حکومت اور اداروں کو ایک بار پھر جارحانہ انداز سے مسئلہ کشمیر پر مضبوط مؤقف اپنانا ہو گا۔ کیونکہ قائد اعظم کی پالیسی کشمیر پاکستان کی روشنی میں کشمیر پاکستان کی بقاء اور سلامتی کے لئے اہم ہے۔
کشمیر ان شاء اللہ بھارت کا قبرستان بنے گا۔ کشمیری پاکستان سے بے پناہ محبت کرتے ہیں وہ بلا تنخواہ دفاعی مورچہ سنبھالے ہوئے ہیں۔ کشمیریوں کی محبت کا اندازہ اس بار میر پور حلقہ 3 کے ضمنی الیکشن سے لگایا جا سکتا ہے۔ حلقے کے عوام نے وزیر اعظم عمران خان کی کشمیر پالیسی کی بھر پور حمایت کرتے ہوئے ان کے نمائندہ تحریک انصاف کے صدر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کو بھر پور اور شاندار کامیابی دلوائی۔ ثابت ہوا کہ بیرسٹر سلطان محمود نا قابل تسخیر ہیں۔ حکومت آزاد کشمیر اور وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر کی گڈ گورنس اور میرٹ بھی کامیابی نہ حاصل کر سکی۔موجودہ ضمنی الیکشن نے سلطان محمود چوہدری اور تحریک انصاف کے مستقبل کا تعین کر دیا ہے۔ کیونکہ 18 ماہ بعد آزاد کشمیر کے قومی الیکشن میں اسکے گہرے اثرات پڑیں گے۔ راجہ فاروق حیدر خان اور حکومتی وسائل اپنے وزراء کے ساتھ بھر پور مہم چلاتے رہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور آزاد کشمیر کے بڑے نام چوہدری لطیف اکبر، چوہدری عبدالمجید اور چوہدری یٰسین نے اپنا وزن بھی مسلم لیگی امیدوار کے پلڑے میں ڈالا۔ شاید پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے قیادت کی بات کو تسلیم نہ کیا اور مسلم لیگی امیدوار کو ووٹ نہ ڈالے۔ پاکستان کے قومی الیکشن میں بھی میثاق جمہوریت کی وجہ سے پنجاب میں پیپلز پارٹی کے امیدواروں کو 500 یا 1000 سے زیادہ ووٹ نہ مل سکے۔ اس وقت بھی پیپلز پارٹی نے سیاسی خودکشی کی ہے۔ جہاں حکمران جماعت مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی اور مسلم کانفرنس کی مقبولیت کم ہوئی ہے وہاں بیرسٹر سلطان محمود چوہدری اور تحریک انصاف کی عوامی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ بلا شبہ عمران خان اور سیف اللہ نیازی کا بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کا انتخاب درست رہا۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق اگر PTI کی حکومت پاکستان میں مسئلہ کشمیر پر مضبوط مؤقف اپناتی ہے، جاندار سفارتکاری سے بہتر اقدامات کرتی ہے اور پاکستان میں مالیاتی استحکام آ جاتا ہے تو اس کا سارا فائدہ بیرسٹر سلطان محمود چوہدری اور تحریک انصاف کو ہوگا۔ اور یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
کشمیریوں کا عمران خان پر اعتماد کا اظہار
Nov 30, 2019