عبرت ناک

اس وقت پاکستان کے تین طاقتور حکمران ایک جیسی اذیت‘ تکلیف اور پریشانی میں مبتلا ہیں اور تینوں کو یہ اذیت تنِ تنہا برداشت کرنا پڑ رہی ہے۔ نہ کسی کی اولاد اس تکلیف کو کم کر رہی ہے یا کم کر سکتی ہے اور نہ ہی مال‘ وہ سارا مال جو جائز محنت سے کمایا اور وہ بھی جو ناجائز انداز سے لوٹا۔ ان کا یومِ حساب دنیا میں ہی دیکھا جا رہا ہے ان تینوں نے میرے ملک کو بہت نقصان پہنچایا۔ یہ نقصان کیا کم ہے کہ انہیں طویل اقتدار ملا اور انہوں نے پاکستان کے قیام کے محرکات میں سے کسی ایک کو حاصل کرنے کیلئے سنجیدہ فکری کا مظاہرہ بھی نہ کیا۔ کسی حدف کے حصول کی طرف قدم بڑھانے یا پیش قدمی کرنے کی نوبت تو بعد میں آنی تھی گویا ان تینوں نے اللہ کی حاکمیت کی بجائے اپنی حاکمیت قائم کرنا چاہی۔ قائداعظم کے پاکستان میں قائد اعظم کی سوچ اور امنگوں کو نافذ کرنے کی کوشش نہ کر کے قائد اعظم سے بے وفائی کرنے کے جرم کے مرتکب ہوئے۔
مجھے ماضی کے ان تینوں حکمرانوں کے کر و فر اور پروٹوکول نے تو اس دور میں بھی کبھی متاثر نہ کیا بلکہ متوجہ بھی نہ کیا تھا جب ان کا طوطی بولتا تھا۔ ان کی زبان سے نکلا ہوا لفظ حکم بن جاتا تھا اور ان کی تعمیل میں رکاوٹ ڈالنے والے کا حشر نشر کر دیا جاتا تھا۔ ان تینوں میں قدرے مشترک یہ تھی کہ انہیں قائداعظم کے پاکستان سے محبت نہیں تھی‘ انہیں اپنے اقتدار سے محبت تھی‘ اسے طول دینے سے محبت تھی اور اس کے لئے پاکستان کی بنیادوں کو ہلا دینے والے فیصلے بھی انہوں نے اپنے اقتدار سے محبت اور اسے طول دینے کے لئے اپنے اپنے دور میں کئے۔ ان تینوں میں یہ بھی قدر مشترک تھی کہ انہوں نے قومی دولت لوٹنے والوں کا احتساب نہیں کیا بلکہ انہوں نے جہاں اپنے فائدے میں ہوا اس کی کھلی چھٹی دی اور سرپرستی بھی کی۔ ان تینوں کی وارداتیں مختلف ہو سکتی ہیں مگر ان وارداتوں کا حاصل ایک ہی تھا۔ ان تینوں میں بات کر کے مکر جانا‘ وعدہ کی خلاف ورزی کرنا‘ جھوٹ بولنا اور اپنی طاقت کے گھمنڈ میں اپنے مخالفین کو نیچا دکھانے کے لئے ہر سطح تک ان کا پیچھا کرنا ایسی عادات تھیں جو مشترک ہونے کے باوجود ان کو ایک دوسرے کے قریب نہ کر سکیں کیونکہ تینوں اندر سے کھوکھلے اور احساس کمتری کے ایسے مرض میں مبتلا تھے جن کا علاج نہ ان کے اپنے پاس تھا اور نہ ہی کسی اور کے۔ تینوں نے اپنے علاوہ کسی پر اعتبار کرنے کو ہمیشہ اپنی ناکای سمجھا اور یہی ان کی کوتاہ قامتی کی علامت بن گئی‘ اس لئے خلوت یا جلوت میں‘ وہم‘ بدگمانی اور بے اعتباری کے عذاب نے ان کو پوری زندگی خود کو غیر محفوظ سمجھنے کی ایسی اذیت ناکی میں مبتلا کئے رکھا کہ اٹھتے بیٹھتے‘ سوتے جاگتے سوائے چند حاشیہ نشینوں اور خوشامدیوں کے انہیں اپنے قریب اور دور ہر شخص اپنا دشمن لگا اور پھر دوستوں سے دوریاں اور رشتہ داری میں دراڑیں پڑتی گئیں اور خون سفید ہونے کے محاورہ کے سچ ہونے کے مظاہر ان کی زندگیوں میں دیکھے گئے۔
مجھے ان کی سیاست سے دلچسپی نہیں‘ ان کے لئے لوگوں کی محبت یا نفرت سے سروکار نہیں‘ ان کے علاج معالجے اور اس معیار سے کوئی واسطہ نہیں کیونکہ میں اس کا تعین نہیں کر سکتا مگر مجھے اس بات کا دکھ ہے کہ ان تینوں نے اپنے اپنے دورِ حکمرانی میں اپنے یا اپنے خاندان کے لئے ہی سہی پورے ملک میں ایک بھی ایسا ہسپتال نہ بنایا جہاں ضرورت پڑنے پر ان کا علاج ہوتا۔ اپنے علاج کے لئے بیرونِ ملک جانا ایسے حکمرانوں کیلئے ڈوب مرنے کا مقام ہوتا ہے۔ مگر یہ تینوں احساس اور اخلاق کی اس سطح سے اتنا نیچے جا چکے ہیں جہاں پر یہ فارمولا منطبق نہیں ہوتا۔ ان تینوں کی اس سے بڑی بدنصیبی کیا ہو گی کہ ان کو لاحق بیماریوں یا بیماری کی تشخیص ہی نہیں ہو رہی علاج تو بعد کی بات ہے۔ ان میں سے ایک جنرل مشرف‘ جو پاکستان سے علاج کے لئے دبئی جا چکا ہے‘ ایسی پرُاسرار بیماری میں مبتلا ہے کہ وہاں ڈاکٹروں کو اس کی بیماری کی سمجھ نہیں آ رہی ہے۔ وہ زیرِ علاج ضرور ہے مگر کس بیماری کا علاج ہو رہا ہے؟ اگر ہو رہا ہے تو اس کی جسمانی اور ذہنی صحت دونوں میں بہتری نہیں آ رہی۔ اس کی ساری اکڑفوں‘ دولت اور اقتدار کے نشے اور دوسرے نشوں کا نشہ سب ہرن ہو چکا ہے۔ یہ آزمائش ہے‘ سزا ہے‘ امتحان ہے یا عبرت؟ مریض نے تو اس سے کچھ سیکھا ہے یا نہیں مگر دوسرے ہوشمند انسانوں کے لئے یہ بہت بڑی عبرت ہے۔
میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو اگر اپنے کسی عزیز پر کوئی مصیبت یا بیماری آئے تو کہتے ہیں نیکوں اور بھلے لوگوں کو ہی اللہ آزماتا ہے۔ ولیوں‘ پیغمبروں کو بھی مصائب جھیلنے پڑے اور اگر اپنے کسی دشمن یا مخالف پر آئے تو کہتے ہیں اللہ اسے دنیا میں ہی سزا دے رہا ہے اسے لوگوں کے لئے نشانِ عبرت بنا رہا ہے۔ کیونکہ میں نے تو قرآنِ پاک میں پڑھ لیا ہے کہ ’’تمہارے سارے اچھے احوال اللہ کی رحمت کا نتیجہ ہیں اور ساری خرابیاں تمہارے اعمال کا نتیجہ ہے‘‘۔ جنرل مشرف کب سے یہ اذیت جھیل رہا ہے اور کب تک جھیلے گا یہ تو معلوم نہیں مگر اسے اس اذیت ناکی سے اس کی طاقت‘ سیاست‘ پیسہ‘ عہدہ‘ تکبر‘ اولاد اور وہ سارے خوشامدی مل کر بھی نجات نہیں دلا سکتے جنہیں مشرف نے اپنے اقتدار کے سمندر سے بڑی دریا دلی سے نوازا تھا۔
دوسرا طاقتور حکمران آصف علی زرداری ہے جس کی ایک ایک سیاسی چال پر اس کو مصالحت کا بادشاہ کہا جاتا ہے‘ جو بھٹو کی بیٹی کے قتل ہونے اور اس کے بیٹوں کی ناہنجاری پر بھٹو کا جانشین بن گیا اور پھر فالودے والے اور ریڑھی والے اس کی وجہ سے کروڑ پتی کے طور پر مشہور ہوئے۔ آئین میں صدر کے اختیارات پر خود قدغن لگانے کے بعد صدر کا منصب سنبھال کر اختیارات کے جائز اور ناجائز استعمال کی ایسی روشن مثال متعارف کرائی کہ کسی فوجی ڈکٹیٹر یا آمر نے بھی وہ مزے اپنے دورِ اختیار میں نہیں لئے ہوں گی جو آصف زرداری نے لئے۔ (جاری)

ای پیپر دی نیشن