لاہور (نامہ نگار) لاہور کے علاقے چوبرجی کے قریب رکشے میں بم دھماکے میں خاتون سمیت دس افراد زخمی ہو گئے پولیس اور بم ڈسپوزل سکواڈ نے دھماکے میں بارودی مواد کیاستعمال کی تصدیق کردی۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے سی سی پی او لاہور سے رپورٹ طلب کر لی ہے اور ہدایت کی کہ زخمیوں کو علاج کی بہترین سہولتیں فراہم کی جائیں تفصیلات کے مطابق ملتان روڈ کے قریب رکشے میں زور دار دھماکہ ہوا علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا دھماکے میں زخمی ہونے والے دس افراد کو سروسز ، جناح، میئو اور گنگارام ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ زخمیوں میں رکشا ڈرائور، سلمان، جاوید، اسد، فخر عباس، قاسم رضا، علیم، محمد عظیم اور صدف شامل ہیں۔ سی ٹی ڈی فرانزک سائنس لیب اور بم ڈسپوزل سکواڈ نے جائے وقوعہ سے شواہد اکٹھے کرکے تحقیقات شروع کر دی ۔ڈی آئی جی انویسٹی گیشن انعام وحید کا کہنا ہے کہ ابتدائی طور پر لگ رہا تھا کہ دھماکہ رکشے میں گیس سلنڈر پھٹنے سے ہوا لیکن دھماکہ بارودی مواد کے پھٹنے سے ہوا ڈی آئی جی آپریشنز اشفاق خان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دھماکے کے وقت رکشہ خالی تھا چند افراد معمولی زخمی ہوئے بم ڈسپوزل سکواڈ کا کہنا ہے کہ جائے وقوعہ سے بال بیرنگ اور مشکوک اشیاء ملی ہیں دھماکے میں دو سے اڑھائی کلو بارودی مواد استعمال کیا گیا۔ پولیس نے بتایا کہ ابتدائی تفتیش کے مطابق رکشے میں دھماکہ خیز مواد پھٹا ایک مسافر شیرا کوٹ سے رکشے میں سوار ہوا تھا جو چوبرجی کوارٹرز کے قریب رکشے سے اتر کر فرار ہو گیا۔ حادثے کی جگہ سے بال بیرنگ اور دیگر شواہد ملے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ رکشے میں دھماکہ خیز مواد پھٹا ہے دھماکے سے رکشہ مکمل طو رپر تباہ ہو گیا، دھماکے سے قریبی عمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔ ایس پی سول لائن کے مطابق رکشے والے کا ابتدائی بیان میں کہنا ہے کہ اس نے شیرا کوٹ سے سواری اٹھا کر سمن آباد اتاری اس کا مشکوک بیگ رکشے میں ہی رہ گیا، رکشہ ڈرائیور نے بتایا کہ وہ بیت الخلا جانے کیلئے اترا تو دھماکہ ہوگیا۔ دھماکے کی سی سی ٹی وی بھی منظر عام پر آ گئی۔ زخمی ہونے والے افراد رکشے کے قریب سے گزر رہے تھے۔ رکشہ 2015ء ماڈل تھا جو حمزہ سعید نامی شخص کی ملکیت تھا۔ رکشہ ڈرائیور سمیت دو افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ذرائع سی ٹی ڈی کے مطابق دھماکہ ٹائم ڈیوائس سے کیا گیا، سی ٹی ڈی نے دھماکے کا مقدمہ درج کر لیا۔ اقدام قتل،دھماکہ خیز مواد اور دہشت گردی کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔ مقدمہ سی ٹی ڈی انسپکٹر کی مدعیت میں درج کیا گیا۔