"کاٹن،ٹیکسٹائل پالیسی ،خوردنی تیل"

Nov 30, 2020

سید مدبر شاہ

کرونا کے خوف کے سائے میں کاٹن مارکیٹ کی سرگرمیاں جاری ہیں امریکہ اور یورپ کے مختلف ممالک میں لگنے والے لاک ڈائون پر پاکستانی سٹیک ہولڈرز کی نظر ہے کیونکہ پاکستان کی 65فیصد ایکسپورٹ ٹیکسٹائل مصنوعات ہیں او ریہ لگ بھگ تمام کاٹن بیس ہیں جبکہ پاکستان کی زیادہ تر ایکسپورٹ امریکہ اور یورپ کو جاتی ہے اس لئے امریکہ اور یورپ میں ہونے والی کوئی بھی غیر معمولی صورتحال براہ راست پاکستان کی معیشت پر اثر انداز ہوتی ہے کرونا کی پہلی لہر کے وقت بھی پاکستان کی ٹیکسٹائل صنعت کو ناقابل تلافی نقصان ہوا تھا جبکہ اب دوسری لہر کے موقع پر تاحال کوئی ایکسپورٹ آرڈر کینسل ہونے کی اطلاح نہیں ہے لیکن جنوری کے آرڈڑ موخر ہونے کی باتیں ضرور مارکیٹ میں گردش کر رہی ہیں جس سے کاٹن مارکیٹ قدرے دبائو میں ہے لیکن پاکستان میں کوالٹی کاٹن کا خریدار کسی نہ کسی طور پر متحرک ہے پھٹی آمد میں کوئی کمی نہیں آئی ہے جس کی وجہ سے جنرز کی بڑی اکثریت کاٹن سیل کر رہی ہے البتہ اب بہت سے جنرز نے کوالٹی کاٹن کا سٹاک الگ سے رکھنا شروع کر دیا ہے مارکیٹ میں افواہ سازی زیادہ ہے جس سے کچھ لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن اکثریت نقصان ہی کرتی ہے مارکیٹ 9500 سے 9600 ہے کچھ دو چار سو بیلز کا کام 9700میں بھی سامنے آیا ہے جو مارکیٹ کے اوپر یا نیچے کے کام ہوتے ہیں ان میں کوالٹی ،ادائیگی اور اوپر نیچے کی ڈیلز کا اہم کردار ہوتا ہے دسمبر میں کرونا کے علاوہ امریکہ کی داخلی سیاسی صورتحال بھی کاٹن مارکیٹ پر اثر انداز ہوسکتی ہے کیونکہ ٹرمپ صدارتی کرسی چھوڑتے نظر نہیں آ رہے پاکستان کی ٹیکسٹائل مصنوعات ایکسپورٹ کرنے والوں کے پاس جنوری 2021کے اچھے آرڈرز موجود ہیں لیکن سب ہی پاکستان میں ڈالرکے ریٹ سے خوفزدہ ہیں موجودہ حکومت نے ایک نیا ہی کام کیا ہے اس نے اورسیز پاکستانیوں کو سہولت دی ہے کہ وہ اپنے ڈالرز پاکستان کے بنکوں میں رکھیں اور ڈالرز پر 7فیصد منافع لیں دنیا میں ڈالرز پر 7فیصد منافع پاکستان ہی دے رہاہے یہی وجہ ہے کہ اورسیز پاکستانیوں نے امریکی اور یورپی بنکوں سے ایک اور دو فیصد پر قرض اٹھا کر 7فیصد پر پاکستان کے بنکوں میں رکھوا دئیے ہیں جس سے وقتی طور پر پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو گیا ہے جبکہ مقامی طور پر ڈالر عدم استحکام کا شکار ہو گیا ہے توقع ہے کہ اگلے تین ماہ میں مزید 2سے3ارب ڈالرز پاکستان میں آجائے گے یہ صورتحال ایکسپورٹرز کیلئے مسائل پیدا کرتی ہے اسے کرنسی کا درست اندازہ نہیں ہوتا جس سے امپورٹ آرڈرز لینے میں دشواری ہوتی ہے افغانستان کے راستے انڈین کاٹن پاکستان میں ڈمپ کرنے کی کوشش جاری ہے اس سلسلے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ افغانستان میں تمام کاٹن فیکٹریاں ساجن جینگ ہے اور جو افغانی کاٹن رولر جینگ کی پاکستان میں آئے گی وہ انڈین کاٹن ہو سکتی ہے ایک اہم بات جو کاٹن جنرز اور کاٹن سیڈ (بنولہ )سے آئل نکالنے والی آئل ملز کے سوچنے کی ہے کہ ابھی 55سے60لاکھ بیلز ہیں اس کے باوجود بنولہ اور کھل فروخت کرنا مشکل بنا ہوا ہے یہ فصل اگلے سال ڈیڑھ کروڑ ہو گئی تو کیا بنے گا ۔
اب ایک نظر موجودہ حکومت کی ٹیکسٹائل پالیسی پر وفاقی کابینہ کو بھجوائی جانے والی پالیسی میں 2025 تک ٹیکسٹائل برآمد 20ارب 80 کروڑ ڈالر تک لے جانے کی تجویز پیش کی گئی ہے دستاویز کے مطابق ٹیکسٹائل پالیسی میں ٹیکسٹائل برآمدات بڑھانے کے اقدامات ،بجلی اور گیس کے ٹیرف کم ،فنا نسگ بڑھانے او ر نئی منڈیوں تک رسائی کی تجویز اور ٹیکسٹائل سیکٹر کو بجلی 9سینٹ سے کم کر کے 7.5سینٹ فراہم کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے ٹیکسٹائل کے لئے آرLNGگیس 6.5 ڈالر فی ایم ایم BTUفراہم کرنے کی تجویز ،ٹیکسٹائل شعبے کیلئے قدرتی گیس 786روپے ایم ایم BTUکرنے کی تجویز اور تک مین میڈ فائبر 30فیصد سے بڑھا کر 50فیصد تک استعمال کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے اس کے علاوہ یہ بھی تجویز دی گئی ہے کہ ٹیکسٹائل سیکٹر کی مشینر ی کیلئے لانگ ٹرم فنانسنگ کو بڑھایا جائے اور ٹیکسٹائل سیکٹر کیلئے مارک اپ کی شرح 5فیصد تک برقرار رکھی جائے ٹیکسٹائل شعبے میں ہیومین ریسورس ڈیویلپمنٹ پر فوکس کرنے کی تجویز اور ٹیکسٹائل کی برآمدات کیلئے نئی منڈیاں تلاش کرنا بھی پالیسی کا حصہ ہے پالیسی کے بنیادی خدوخال تو دلفریب ہیں لیکن یہ جو ٹیکسٹائل پر سیلز ٹیکس کا بوجھ ہے جس کی وجہ سے ٹیکسٹائل بہت زیادہ مسائل کا شکار ہے اور خاص طور پر ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل جو دھاگہ اور کپڑے پر 17فیصد سیلز ٹیکس ادا کر رہی ہیں اور جس کے اپنے پیسے سیلز ٹیکس کی مد میں حکومت کے خزانے میں چلے جاتے ہیں جبکہ مارکیٹ اور بنک کے قرض سے کارخانے چلانے پڑتے ہیں جس کی وجہ سے ویلیو ایڈڈ اور خاص طور پر سمال اور میڈیم ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل زیادہ مشکل میں ہے اصل تو ٹیکسٹائل کو زیرو ریٹ کرنے کی ضرورت تھی جس پر اس پالیسی میں کوئی ٹائم فریم نہیں دیا گیا ٹیکسٹائل سے وابستہ زیادہ تر افراد کا یہی خیال تھا کہ حکومت ٹیکسٹائل پالیسی میں سیلز ٹیکس پر لازمی نظر ثانی کرے گی ۔
اب ایک نظر دنیا میں خوردنی تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر جس کی وجہ سے پاکستان میں گھی اور تیل کی قیمتوں میں اضافہ کا خطرہ ہے اس سال پاکستان سمیت پوری دنیا میں تیل دار اجناس کی فصل کم ہے جبکہ ڈیمانڈ میں اضافہ ہو گیا ہے پوری دنیا میں لاک ڈائون کے خطرے کو دیکھتے ہوئے لوگوںنے گھی اور تیل گھرو ں میں زیادہ خرید کر رکھا ہے جس سے ڈیمانڈ میں اضافہ ہواہے اور پوری دنیا میں خوردنی تیل کی مارکیٹس اوپر چلی گئی ہیں پاکستان کی حکومت کو اس پر توجہ دینی ہو گی اور کوشش کرنی ہو گی کہ تیل اور گھی مقامی طور پر مہنگا نہ ہو ۔

مزیدخبریں