ہر دن یہاں گزرتا ہے طوفان اٹھا اٹھا کر
ہر رات کٹ رہی ہے خون جگر جلا کر
خوشیاں نصیب میں نہیں شاید غریب کے
جیتا ہے چپکے چپکے سے آنسو بہا بہا کر
بے رحم موسموں نے وہ گھونسلے اجاڑے
پنچھی نڈھال بیٹھے تھے جن کو بنا بنا کر
بلڈوز ہو رہا ہے کہیں گھر اگر کسی کا
تلقین پھر بھی ہوتی ہے تھوڑا سا آسرا کر
دیکھے تھے خواب جتنے سھی سارے بکھر گئے
اب تھک چکے ہیں خالی پلائو پکا پکا کر
سینے میں جیسے لاوا سا کوئی ابل رہا ہے
اشکوں کو روک رکھا ہے ڈھارس بندھا بندھا کر
دو دو کی چپڑیوں سے وہی ایک سوکھی اچھی
ہر کوئی مانگتا ہے اب ہاتھ اٹھا اٹھا کر
شرافت ضیاء
ہر دن یہاں گزرتا ہے
Nov 30, 2020