پیپلزپارٹی یوم تاسیس…… کیا پایا؟ کیا کھویا؟

Nov 30, 2021

 رحمن اے ملک 
(ستارہ شجاعت نشان امتیاز) 
ذوالفقار علی بھٹو نے 30 نومبر 1967ء کو اپنے شریک بانیوں کے ساتھ ملکر پاکستان پییلزپارٹی کی بنیاد ان عقائد اور عزم کے ساتھ رکھی کہ ملک کے دبے ہوئے‘ پسے ہوئے‘ محنت کش طبقے‘ غریب عوام اور مزدوروں کے حقوق کیلئے جدوجہد کرکے عوام میں سیاسی بیداری پیدا کی جا سکے۔  پی پی پی ملک کی واحد سیاسی جماعت ہے جو چاروں صوبوں ‘ قبائلی علاقوں اور شمالی علاقہ جات میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتی ہے اور ہر طبقہ کو پھر شہری علاقہ فرقہ مذہب اور جنس سے بالاتر ہوکر یکساں مواقع فراہم کرتی ہے پیپلز پارٹی نے ہمیشہ سماجی انصاف‘ قانون کی حکمرانی اور انسانی وقار پر مبنی معاشرے کیلئے جدوجہد کی ہے اور جاری رکھے گی پیپلز پارٹی وفاق کی علامت ہے جس نے وفاق کی بنیاد پر سیاست کا آغاز کیا شہید ذوالفقار علی بھٹو ایک عظیم سیاسی سوچ اور دانش کے حامل رہنما تھے جو پیدائشی اصلاح پسند تھے جو اپنی کرشماتی شخصیت سے قوم کو قائل کرنے اور رہنمائی کرنے کی صلاحیت  رکھتے تھے میں نے بطور طالب علم اور کراچی میں ایک سرکاری ملازم کی حیثیت سے مسٹر ستار گبول اور مسٹر تاج جمالی کے ساتھ ان سے  متعارف ہوا اور ملاقاتیں کیں  بات چیت کے دوران اور کئی نجی فنکشنز میں بھی انہیں متاثر کن اور پرجوش پایا۔ ڈاکٹر مبشر حسن‘ شیخ رشید‘ جے اے رحیم‘ ڈاکٹر مبشر حسین‘ غلام مصطفیٰ کھر‘ رفیع رضا‘ عبدالحفیظ پیرزادہ حیات شیر پاؤ اور بائیں بازو کے رہنما معراج محمد خان جو 21 جولائی  2016ء کو انتقال کر گئے۔  پی پی پی کی تقریباً تمام اہم سیاسی شخصیات کا تعلق پنجاب سے  ہوتا جن میں مرحوم جے اے رحیم جو کہ پی پی پی کے بانی سیکرٹری جنرل اور پی پی پی کی بنیادی دستاویز کے مصنف ڈاکٹر مبشر حسن‘ شیخ رشید (بابائے سوشلزم)‘ خورشید حسن میر‘ غلام علی مصطفیٰ کھر‘ ملک معراج خالد‘ رفیق احمد یا 70 اور 80 کی دہائی کے اواخر سے تعلق رکھنے والے جن میں اعتراز احسن‘ مرحوم جہانگیر بدر‘ ڈاکٹر غلام حسین‘ مختار رانا اور بہت سے دوسرے شامل ہیں یہ بات قابل توجہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے زیادہ توجہ پنجاب پر دی کیونکہ وہ جانتے تھے پنجاب سب سے  بڑا صوبہ ہے بڑا صوبہ ہونے کے ناطے اس کا ساتھ دینا چاہئے وہ ایک عام آدمی کا درد جانتے تھے اور انہوں نے غریب اور متوسط طبقے کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ کیا اور ان کے نعرے روٹی کپڑا اور مکان نے پی پی پی کو بڑا اعزاز بخشا۔ معراج محمد خان نے 1971ء  میں پی پی پی کی حکومت بننے کے بعد افرادی قوت کے وزیر کے طور پر خدمات انجام دیں جلد ہی ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ اختلافات سامنے آنے لگے اور 1973ء میں پی پی پی سے دستبردار ہو گئے ذوالفقار علی بھٹو نے اعتراف کیا کہ ایک مخلص ساتھی کو الگ ہونے کی اجازت دیکر غلطی کی گئی پارٹی کیلئے یہ پہلی دھچکا تھا کیونکہ سیاسی جماعتیں کام کرنے والوں اور ذہین رہنماؤں کے ساتھ مضبوط نظر آتی ہیں۔  ایک اور بزرگ سیاستدان اور پیپلز پارٹی کے بانی رکن ڈاکٹر مبشر حسن نے جو مارچ  2020ء میں انتقال کر گئے تھے کہا جاتا ہے کہ پیپلز پارٹی کا سنگ بنیاد گلبرگ لاہور میں ان کے گھر میں رکھا گیا وہ ذوالفقار علی بھٹو کے قریبی ساتھی ہونے کے ساتھ ساتھ پی پی پی کا پہلے پہل منشور تیار کرنے والوں میں سے ایک تھے وہ (اس وقت) مغربی پاکستان کے شہروں‘ قصبوں اور دیہاتوں میں پی پی پی کو منظم کرنے والے اہم معماروں میں سے ایک تھے وہ 1970ء میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور 1971ء سے 974 تک بھٹو کی کابینہ میں وزیر خزانہ رہے انہوں نے 1972ء میں وزارت سائنس کے قیام  میں شہید ذوالفقار بھٹو کی مدد کی اور انہیں پاکستان کے جوہری منصوبے کے لئے فنڈنگ کا بندوبست کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی انہوں نے کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز کے قیام میں  بھی مدد کی بعد ازاں ڈاکٹر  مبشر حسن بھی اندرونی سازشوں  کا شکار ہو گئے اور کابینہ کے کچھ لوگوں نے بھٹو شہید سے اختلافات پیدا کر دیئے اور اور بانی رکن اور پی پی پی کے چاہنے والے پیپلز پارٹی سے زبردستی نکالے گئے۔  جلال  الدین عبدالرحمن آپ ایک بنگالی کمیونسٹ اور سیاسی فلسفی تھے جو پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی  ارکان کے طور پر مشہور تھے اور پاکستان پیپلز پارٹی کے پہلے سیکرٹری جنرل بھی تھے ‘ پہلے وزیر پیداوار کے طور پر خدمات انجام دیں جے اے رحیم  نے  پاکستان سول سروسز  میں شمولیت اختیار کی وزیراعظم محمد علی بوگرا کی حکومت میں سیکرٹری خارجہ کے طور پر کام کرتے ہوئے پاکستان کی فارن سروس میں پہلی بیورو کریٹک اسائنمنٹ کا آغاز کیا کچھ عرصے تک وہ کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ رہے  لیکن 1965ء  میں سوشلسٹ ذوالفقار علی بھٹو سے ذاتی تعلقات بھی استوار کر لئے ڈاکٹر مبشر حسن کی رہائش گاہ پر ہونے والے سوشلسٹ کنونشن میں شرکت کے بعد جے اے رحیم نے پارٹی سوشلسٹ منشور لکھنے میں کلیدی کردار ادا کیا یہ سوشلسٹ منشور جو سرکاری طور پر پہلی بار 9 دسمبر 1967ء کو جاری کیا گیا تھا جے اے رحیم کو پارٹی کا آئین لکھنے کے بعد پی پی پی کا پہلا سیکرٹری جنرل بنایا گیا  تھا 1972ء  میں جے اے رحیم دفاعی پیداوار کے پہلے وزیر بنے اور 1974ء تک تعینات رہے‘ بعد ازاں ذوالفقار  بھٹو کے ساتھ اختلافات پیدا ہوئے اور انہیں دروازہ دکھایا گیا اور یہ تیسری قربانی تھی کچھ لوگوں کا کہنا   ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے آخری ایام میں اپنے سابق سرپرست جے اے رحیم کے ساتھ ہونے والے جھگڑے پر افسوس کا اظہار کیا۔ 1977ء میں جے اے رحیم کو دل کا دورہ پڑا اور ان کا انتقال ہو گیا اب وہ کراچی میں دفن ہیں شیخ محمد رشید‘ پی پی پی کے بانی ارکان میں سے شیخ  محمد رشید ایک تھے اور سوشلسٹ مقصد کیلئے پرعزم تھے جس کی وجہ سے انہیں بابائے سوشلزم (فادر آف سوشلزم) کے نام سے جانا جاتا تھا۔ لیکن پی پی پی کی اقتدار میں واپسی کے بعد 1980ء  کی دہائی میں طویل عرصے تک فوجی حکمرانی کے بعد شیخ رشید ایک دفعہ کے سینئر وائس چیئرمین رہنے کے باوجود آہستہ آہستہ پارٹی کے اندر خود کو الگ تھلگ  محسوس کرنے لگے پیپلز پارٹی کی قیادت نے انہیں نظر انداز کیا 1967ء میں انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو مرحوم سے ہاتھ ملایا۔  شیخ محمد رشید اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے قریب رہے جنہوں نے ان کے ساتھ اپنے سب سے سینئر کابینہ کے ساتھی کی طرح برتاؤ کیا  جب جنرل ضیاء الحق نے پیپلزپارٹی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تو انہوں نے کئی سال برطانیہ میں جلا وطنی کی زندگی گزاری‘ پھر ستمبر 1988ء میں جنرل ضیاء کی پراسرار موت کے بعد ‘ وہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ پاکستان واپس آئے اور 1988ء کے پاکستان کے عام اتخابات کی مہم کیلئے واپس آئے وہ بھی اختلافات کا شکار ہوئے اور انہوں نے جلاوطنی اور ملک میں رہ کر پارٹی کیلئے بہترین خدمات انجام دی اس کے باوجود انہیں دروازہ   دکھایا گیا بدقسمتی سے پاکستان میں 1990ء کے انتخابات میں حصہ لینے کیلئے انہیں پی پی پی کا ٹکٹ دینے سے انکار کر دیا گیا۔  شیخ محمد رشید کو طویل عرصے سے دمہ تھا اور بالآخر12 ستمبر 2002ء کو 87 سال کی عمر میں لاہور میں انتقال کر گئے۔  غلام مصطفیٰ کھر کا شمار پیپلز پارٹی کے بانی ارکان میں ہوتا ہے۔  ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے دوران، کھر کو پنجاب کا گورنر اور بعد میں پنجاب کا وزیراعلیٰ مقرر کیا گیا۔ تاہم، بعد میں وہ پارٹی کی سینئر قیادت کے حق میں دستبردار ہو گئے جب ذوالفقار علی بھٹو کو کچھ ایسی ناقابل قبول حرکتوں کی شکایات ملی جو ان کی سیاست کے لیے نقصان دہ تھیں۔ جب اگست میں 1973 کا آئین منظور ہو اور پی پی پی اقتدار میں آئی تو کھر کو صوبہ پنجاب کے وزیراعلیٰ کا قلمدان دیا گیا۔ پی پی پی کے اندر سے شکایات پر، کھر کی جگہ بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والے اور دانشور حنیف رامے نے لے لی۔ کھر کو مارچ 1975ء میں مختصر طور پر دوبارہ گورنر مقرر کیا گیا اور آخر کار جولائی 1975ء میں برطرف کر دیا گیا۔ کھر کے مشکوک عزائم پر بھٹو کے شہبات نے پنجاب میں پی پی پی کے اندر گہری تقسیم کی اور پھر کھر کو لاہور میں رامے کی نشست پر انتخاب لڑنے کی اجازت سے انکار  کر دیا گیا اور کھر کی آزاد حیثیت سے اس نشست پر انتخاب لڑنے کی کوششیں ناکام ہو گئیں۔ 1976ء تک پی پی پی کے اندر سابق حریف، کھر اور رامے پیر آف پگارو کی پاکستان مسلم لیگ (ایف) کے اندر مل کر کام کر رہے تھے۔ مسٹر کھر نے دوبارہ پارٹی جوائن کی اور انہوں نے میری موجودگی میں پی پی پی پنجاب کے صدر کے عہدے کے لیے درخواست کی تھی جسے مسترد کر دیا گیا تھا۔ یہ ملاقات ٹرین میں ہوئی تھی جس میں انتہائی قابل مسٹر واجد شمس الحسن اور میں موجود تھے۔  حیات شیر پاؤ پاکستان کے سابق صدر اور وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے قریبی ساتھی اور پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے شریک بانی تھے۔ بھٹو کے پاکستان کے صدر بننے کے فوراً بعد 25 دسمبر 1971 کو شیرپاؤ خیبرپختونخوا کے 15 ویں گورنر بنے۔ 34 سال کی عمر میں شیر پاؤ پاکستان کی تاریخ میں کسی صوبے کے گورنر کے عہدے پر فائز ہونے والے سب سے کم عمر شخص تھے۔ وہ 30 اپریل 1972 ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔ شیر پاؤ ذوالفقار علی بھٹو کی کابینہ میں وفاقی وزیر اور خیبرپختونخوا کابینہ میں سینئر وزیر بھی رہے۔ خیبرپختونخوا کے ساتھ ساتھ باقی پاکستان میں ان کی مقبولیت میں اضافے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس پر کئی حاسد نگائیں پڑی اور انہوں نے کئی دشمن بنا لیے، جو اکثر دیگر مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتوں کے تجربہ کار اور پہلے سے قائم سیاستدانوں کی شکل میں ہوتے ہیں۔ تاہم اس مقبولیت اور سیاسی کامیابی نے انہیں ذوالفقار علی بھٹو کے ذریعہ ’’سرحد کا شیر‘‘ بنا دیایا‘‘ شیر سرحد‘‘ کہا گیا انہیں 8 فروری 1975ء کو پشاور یونیورسٹی کے کیمپس میں ایک بم  دھماکے میں قتل کر دیا گیا تھا۔ ان کی موت آج بھی تازہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہے۔  عبدالحفیظ پیرزادہ ایک پاکستانی وکیل، قانونی تھیوریسٹ، اور سیاست دان تھے، جنہوں نے 1971 سے 1977 تک صدر اور بعد میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں وزیر اطلاعات، وزیر قانون، وزیر خزانہ اور وزیر تعلیم کے طور پر کام کیا۔ انہیں 1973 میں منظور ہونے والے آئین پاکستان کے پرنسپل ڈرافٹ مین کے طور پر جانا جاتا ہے۔ پیرزادہ پاکستان پیپلزپارٹی کے بانی رکن تھے اور 1970 کے انتخابات میں قومی اسمبلی کے لیے منتخب ہوئے، انہوں نے بھٹو حکومت میں کئی وزارتی قلمدان سنبھالے۔ 1977 میں جنرل ضیاء الحق کی جانب سے حکومت کو معزول کرنے کے بعد، انہوں نے مبینہ طور پر قتل کے مجرمانہ مقدمے میں ذوالفقار بھٹو کے دفاع کی ناکام مدد کی۔ انہوں نے ضیا دور حکومت میں قید ہونے سے قبل پیپلزپارٹی کی مختصر قیادت کی، آخر کار بے نظیر بھٹو سے اختلافات پر پارٹی چھوڑ دی، اور سیاست سے ریٹائر ہو گئے۔ درحقیقت سندھ کے سیاستدانوں کا گروپ جی ایم جتوئی، ممتاز علی بھٹو حفیظ پیرزادہ اور مولانا نیازی جنرل ضیاء کی طرف وفاداریاں تبدیل کر  گیا تھا۔ درحقیقت یہ وہ چند رہنما تھے جنہوں نے ذوالفقار علی بھتو کی پیٹھ میں چھرا گھونپا اور بھٹو کو دھکیلنا آسان ہو گیا۔ بنیادی طور پر پی پی پی کا دوبارہ جنم شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی بے مثال جدوجہد سے ہوا تھا اور بھٹو خاندان کے افراد نے پی پی پی کے لیے اپنا خون دیا تھا اور شہید محترمہ نے یہاں اور بیرون ملک ایک عظیم ٹیم کھڑی کی تھی اور پی پی پی نے  ان کی پہلی لاہور آمد پر اپنی طاقت دکھائی تھی۔ ذوالفقار بھٹو کے مذکورہ قریبی ساتھیوں کے علاوہ پی پی پی کے بہت سے سینئر رہنما اور بھٹو کے قریبی ساتھیوں میں حفیظ پیرزادہ، ستار گبول، قاسم پٹیل، پیار علی الانا، جام صادق، حفیظ چیمہ، حبیب اللہ اور مصطفی جتوئی شامل تھے۔انہوں نے اپنی وفاداریاں تبدیل کر کے فوجی آمریت کا ساتھ دیا اور ان کے والد کی پھانسی کے خلاف بی بی کی مزاحمتی تحریک کو چھوڑ دیا۔ ضیاء حکومت نے پیپلزپارٹی کے کارکنوں اور رہنماؤں کو دہشت زدہ کر دیا اور اسی وجہ سے درمیانی سطح کی قیادت روپوش ہو گئی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو (اپنے والد کے الفاظ میں پنکی) نے اپنے پایا کو بچانے کے لیے جدوجہد کرنے کا فیصلہ کیا لیکن انھیں بند کر دیا گیا اور سکھر جیل کی اونچی دیواروں کے پیچھے ان کی آواز کو دبا دیا گیا اور کبھی گھر میں نظر بند کر دیاگیا۔ اس نے جیل میں اپنے بابا کے ساتھ اپنا وعدہ پورا کیا اور وہ ایک لیڈر بن کر ابھریں۔ دوبارہ وزیراعظم رہی مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں اپنی پہلی حکومت میں ڈائریکٹر ایف آئی اے اور انکے دوسرے دور میں ایڈیشنل ڈی جی ایف آئی اے کے طور پر کام کیا اور پھر آمریت کے خلاف جدوجہد میں جلاوطنی میں ان کی مدد کی۔ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) پاکستان کی واحد سیاسی جماعت ہے جس کو نچلی سطح پر حمایت حاصل ہے اور غالباً سب سے زیادہ تعداد میں مرنے اور قربانیاں دینے والوں کی جماعت ہے۔ یہ واحد بڑی سیاسی جماعت ہے جس کے پاس پارٹی قیادت کا جانشین ہے‘ بلاول بھٹو۔ اس کے پاس نوجوان قیادت ہے جو حقیقت میں پارٹی کے ساتھ ساتھ ریاست کا مستقبل بھی بدل سکتی ہے۔ پیپلز پارٹی کا سندھ کی دیہی آبادی اور شہری مراکز میں عوام  کے ساتھ مضبوط رشتہ ہے۔ بھٹو کی میراث آج بھی مضبوط ہے اور پیپلز پارٹی اسے کامیابی سے کیش کر رہی ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (BISP) ایک اور منصوبہ ہے جس نے انہیں غریب عوام میں سراہا ہے۔ تمام صوبوں میں اس کی موجودگی ہے کہ اگر دانشمندی سے زیادہ نوجوان قیادت کو متعارف کرایا جائے تو وہ جارحانہ طریقے سے دوسرے صوبوں میں عوام تک پہنچ سکتے ہیں‘ جو کسی دوسری پارٹی کے مقابلے میں پی پی پی پی کو زیادہ مواقع دینے کیلئے تیار ہوں گے۔ کچھ ایسے منفی عناصر ہیں جو پارٹی کو پیچھے کی طرف دھکیل رہے ہیں اور وہ علاقے یا صوبے جہاں پارٹی کے قدم کبھی مضبوط تھے اپنی طاقت کھو رہے ہیں۔ پارٹی میں سب سے بڑا منفی عنصر جو دیکھا گیا ہے وہ یہ ہے کہ پی پی پی کی قیادت کے خلاف پروپیگنڈے کو نظرانداز کیا گیا اور بھرپور جواب نہیں دیا گیا۔ پی پی کے خلاف پروپیگنڈا کیا گیا کہ پی پی پی نے اپنے 5 سالہ طویل دور حکومت میں فعال کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا اور ان چیزوں کو قدرے کم سمجھ لیا جس کی وجہ سے ان کی مضبوط بنیادوں پر گرفت ڈھیلی پڑ گئی۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کے خلاف گھٹیا 

پروپیگنڈا ہوا اقتدار میں اپنے آخری دور کے بعد ریاستی امور میں ناقص کارکردگی کی وجہ سے وہ پنجاب میں کافی گراؤنڈ کھو بیٹھے۔ پیپلز پارٹی کو ابھی بہت طویل سفر طے کرنا ہے اور ذوالفقار علی بھٹو یا ان کی بیٹی بینظیر بھٹو جیسے کسی کی غیر موجودگی میں‘ اور پنجاب میں اس وقت کی دوسری بڑی سیاسی شخصیات جیسے مرحوم جے اے رحیم‘ بانی سیکرٹری جنرل اور پی پی پی کے بنیادی آئین کے دستاویز کے مصنف‘ ڈاکٹر مبشر حسن‘ شیخ رشید (بابائے سوشلزم) اور بہت سے دوسرے بڑے رہنماؤں کے بغیر سفر طے کرنا ہے کیونکہ ہمارے پاس پنجاب میں قد کاٹھ والا لیڈر نہیں ہے۔ تاریخی طور پر پیپلز پارٹی کو اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ نے جنرل ضیاء کی ہدایت پر مرحوم جنرل غلام جیلانی جیسے کھلاڑیوں کے ذریعے ایک سازش کے ذریعے پنجاب سے بے دخل کیا گیا تھا۔ اگرچہ پی پی پی نے 1988 سے 2008 تک قومی اور پنجاب اسمبلیوں میں ہمیشہ  اچھی خاصی نشستیں حاصل کیں‘ لیکن 1977 کے بعد وہ ٹاپ پوزیشن حاصل نہ کر سکی۔ پیپلز پارٹی بالآخر 2013 ء  کے انتخابات کے بعد پنجاب سے غائب ہو گئی اور یہاں تک کہ جنوبی پنجاب میں اپنا مضبوط گڑھ بھی کھو بیٹھی۔ اس طرح 2013 کے انتخابات میں پی پی پی کا خیال تھا کہ پی ٹی آئی ن لیگ کو نقصان پہنچائے گی لیکن اس کے برعکس اس نے پی پی پی کو نقصان پہنچایا اور ہمیں ایلین فیکٹر اور ایک پاکستانی بزنس ٹائیکون کی حمایت کو نظرانداز نہیں کرنا چاہئے۔ ہمیں اپنی صحیح سیاسی چال چلانے کے لئے پرعزم اور تجربہ کار اور سمجھدار قیادت کی ضرورت ہے حالانکہ اس وقت ہر کوئی اپنی پوری کوشش کر رہا ہے۔ آیئے امید کرتے ہیں کہ ہم پارٹی کو بحرانوں سے نکال کر پنجاب اور مرکز میں اپنی حکومت بنانے میں کامیاب ہوں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مرکزی دھارے کی تینوں سیاسی جماعتیں یعنی پاکستان مسلم لیگ (نواز) پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں قائم ہوئیں۔ موخر الذکر تینوں میں سب سے پرانی ہے لیکن ن طویل عرصہ سے پنجاب کے دل سے ایک بھی سیٹ نہیں جیتی ہے ہمیں پی پی پی کو خود کو دوبارہ تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔ میں اس تجویز کے ساتھ بات ختم کرنا چاہتا ہوں کہ صدر آصف زرداری کو اپنے کور گروپ اور چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت پنجاب‘ کے پی اور بلوچستان میں ضلع اور تحصیل لیول پہ ورکرز کے ساتھ گزارنا چاہئے اور پارٹی کے ناراض ورکرز کو سینے سے لگایا جائے تاکہ پارٹی دوبارہ سے جان پکڑ سکے۔ یہ بات حوصلہ افزاء ہے کہ درمیانی اور سینئر قیادت اپنے کارکنوں کے ساتھ پارٹی کو مضبوط کرنے کے لئے پی پی پی میں شامل ہو رہی ہے۔ ہمیں اپنے کارکنوں میں بھرپور اعتماد پیدا کرنے کے لئے شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی پالیسیوں کو اپنانا ہو گا۔ ہمیں نوجوانوں کے لئے ایک انتہائی پرکشش ایجنڈا دینے کی ضرورت ہے اور ہمارے پاس بے روزگار لوگوں کے لئے مناسب پروگرام ہونے چاہئیں جن میں خود روزگار کی کچھ اسکیمیں بھی شامل ہو۔ ہم حکومت سندھ کی طرف سے خود روزگار کے لئے کچھ قابل عمل منصوبے شروع کر سکتے ہیں جن کا دائرہ کار دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد پورے ملک میں پھیلا سکتے ہیں۔ میں تمام کارکنوں کو اس دن کی مبارکباد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ ہم سب پارٹی کو زیڈ اے بھٹو اور شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی حقیقی جماعت بنانے  کے لئے مل کر جدوجہد جاری رکھیں گے۔ بلاول بھٹو کو مضبوط کریں گے۔ نوٹ مصنف پاکستان کے سابق وزیر داخلہ‘  پانچ کتابوں کے مصنف‘ چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف ریسرچ اینڈ ریفارمز (IRR) اسلام آباد  / گلوبل آئی ہیں۔ ان سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
 Twitter gmail.com.malik1212 
+923325559393 WhatsApp @Senrehmanmalik 

مزیدخبریں