صدر مملکت عارف علوی نے کہا ہے کہ اسلامو فوبیا ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے‘ اسلامی ممالک اسلاموفوبیا کے تدارک کیلئے اقدامات کریں۔
پوری دنیا میں اسلامو فوبیا کی لہر میں بڑی شدت دیکھنے میں آرہی ہے حتیٰ کہ مہذب ممالک جو معاشروں میں تحمل و برداشت کو فروغ دینے کے دعویدار ہیں‘ انکے ہاں اسلاموفوبیا کے حوالے سے زیادہ شدت پائی جاتی ہے۔مذہبی منافرت اور تعصب کو سب سے زیادہ ہوا مغرب نے ہی دی ہے۔ان میں فرانس سب سے آگے ہے جس نے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کرکے مسلمانوں کی دل آزاری کا اہتمام کیا۔ اسلامو فوبیا کی ایک خوفناک اور بھیانک شکل بھارت میں بھی دیکھی جا سکتی ہے جہاں مسلمانوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ گزشتہ چند دہائیوں سے منظم سازش اور باقاعدہ منصوبہ بندی سے دہشت گردی کو اسلام سے جوڑا جارہا ہے جس کی وجہ سے پورے عالم اسلام میں تشویش پائی جا رہی ہے۔ اس تناظر میں صدر مملکت عارف علوی کی فکرمندی درست نظر آتی ہے جو مسلم ممالک پر اسلامو فوبیا کیخلاف اقدامات کرنے کیلئے زور دے رہے ہیں۔ اسلام امن و آشتی کا دین ہے‘ دہشت گردی اور انسانیت کے قتل کی کھل کر مذمت کرتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان بھی جنرل اسمبلی میں اپنے ورچوئل خطاب میں عالمی برادری پر اسلامو فوبیا کے تدارک کیلئے زور دے چکے ہیں جبکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے انسداد دہشت گردی کی نظرثانی شدہ عالمی حکمت عملی کی متفقہ منظوری دیتے ہوئے عالمی برادری پر نفرت‘ نسل پرستی اور اسلام کیخلاف پروپیگنڈا کی بنیاد پر دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرات سے نمٹنے کیلئے مناسب اقدامات کرنے اور اسلامو فوبیا کی بنیاد پر دہشت گردی کو روکنے پر زور دیا ہے۔ لیکن افسوس کہ اقوام متحدہ کی اس حکمت عملی کے باوجود نہ اسلامو فوبیا کا تدارک ہو سکا نہ ہی مسلمانوں کو الحادی قوتوں کی نفرت کا نشانہ بنائے جانے سے روکا جا سکا۔ بالخصوص بھارت کسی بھی عالمی دبائو کو خاطر میں نہیں لا رہا۔ جنرل اسمبلی کے ریمارکس پر اگر اقوام متحدہ عملدرآمد کرانے میں سنجیدگی اختیار کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ دنیا بھر سے اسلامو فوبیا کا تدارک نہ ہو سکے۔ اسی طرح تحفظ ناموس رسالت کا قانون بھی بین الاقوامی سطح پر منظور کرانے کی ضرورت ہے۔ اس عظیم مشن کیلئے تمام مسلم ممالک اپنے ذاتی اور سفارتی سمیت تمام ذرائع بروئے کار لائیں تاکہ تحفظ ناموس رسالت ؐ کو یقینی بنایا جا سکے اور اسلامو فوبیا کے آگے مؤثر بند باندھا جاسکے ۔