مجرم کے خطاب سے پیغام گیا بڑا ڈاکہ مارو: عمران

اسلام آباد‘ دینہ (خبر نگار خصوصی‘ نامہ نگار) وزیراعظم عمران خان نے پاکستان کی جامعات میں تحقیق کی ضرورت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا ہے کہ لاہور میں عاصمہ جہانگیر فاؤنڈیشن کے سیمینار میں ججز کی موجودگی میں مجرم کے خطاب سے پیغام گیا ڈاکہ مارو تو بڑا مارو۔سیمینار میں مہمان خصوصی اسے بلایا گیا جسے سپریم کورٹ نے سزا دی ۔ قرآنی احکامات کے باوجود معاشرے میں اجتہاد سے دوری بدقسمتی ہے۔ عظیم قوم بننے کے لئے عظیم کردار چاہیے، اخلاقی اقدار کے حامل معاشرے کو ایٹم بم بھی تباہ نہیں کرسکتا۔ خود غرض، بزدل اور بدعنوان شخص کبھی لیڈر نہیں بن سکتا۔ بدقسمتی سے پاکستان میں چوروں کو برا نہیں سمجھا جاتا۔ پیر کوجہلم میں القادر یونیورسٹی کے اکیڈمک بلاکس کے افتتاح کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ میں نے تاریخ کا گہرائی سے مطالعہ کیا۔ پاکستان اپنے قیام کے بعد تیزی سے ترقی کر رہا تھا۔ پیش گوئی کی جا رہی تھی کہ پاکستان ایشیا کا کیلیفورنیا بننے جا رہا ہے، پھر ہم نے یہاں زوال آتے دیکھا۔ انہوں نے کہا کہ میں اپنے عقیدے کی بنا پر سیاست میں آیا کیونکہ سیاست میں آنے سے پہلے میں دولت، شہرت سمیت سب کچھ دیکھ اور حاصل کرچکا تھا۔ انہوں نے کہا کہ کسی انسان پر اللہ کی سب سے بڑی نعمت ایمان ہے، ایمان والا آدمی دولت، شہرت، انا، ذات، برادری کی زنجیروں کے خوف سے آزاد ہو جاتا ہے۔ جب انسان ان زنجیروں سے آزاد ہو جائے تو اس کی صلاحیت کو بروئے کار آنے سے کوئی روک نہیں سکتا۔ میں اپنے مطالعہ سے اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جب تک ہم سیرت النبی ﷺ پر نہیں چلیں گے، علامہ اقبال کے خواب کی تکمیل نہیں کرسکیں گے۔ ان کی سوچ کسی کی ذہنی غلامی اور نوآبادیاتی نظام سے آزادی تھی کیونکہ ذہنی غلامی جسمانی غلامی سے زیادہ خوفناک ہوتی ہے۔ مغربی تہذیب اور اسلام کے موازنے پر علامہ اقبال نے شکوہ جواب شکوہ لکھی۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمارا تعلیمی نظام ترقی کے راستے میں بڑی رکاوٹ ہے۔ ایک طرف انگریزی نصاب تعلیم دوسری طرف اردو اور پھر دینی مدارس۔ ان تین متوازی نظام تعلیم سے تین مختلف طبقات نکلنا شروع ہوئے جن کا ایک دوسرے سے کوئی واسطہ نہیں۔ اس لئے ہم نے ملک بھر میں یکساں نصاب تعلیم رائج کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ایک بڑے سکالر اشفاق احمد کی چین کے عظیم راہنما مائوزے تنگ سے ملاقات ہوئی تو چینی راہنما نے پاکستان کو عظیم قوم قرار دیا۔ ان کا کہنا تھاکہ جو قوم شدید گرمی میں اللہ کے خوف کی وجہ سے روزہ کی حالت میں پانی نہیں پیتی وہ اللہ کے خوف سے رشوت سے بھی بچ سکتی ہے، یہی مدینہ کی ریاست کے اصول تھے۔ وہاں خود احتسابی تھی۔ اسلام کی تاریخ میں سارے سائنس دان اور دانشور ایک ساتھ چل رہے تھے۔ اسلام اور سائنس میں کوئی تصادم نہیں۔ وزیراعظم نے کہاکہ پاکستان میں یونیورسٹیوں میں تحقیق کی ضرورت ہے۔ اپنی آنے والی نسلوں کو مغربی تہذیب سے آگاہ کرنے کے لئے تحقیق ضروری ہے تاکہ انہیں بتایا جائے کہ مغرب میں اگر ٹیکنالوجیکل ترقی نظر آ رہی ہے تو دوسری طرف ان کی عبادت گاہیں خالی ہو رہی ہیں۔ صرف مادی ترقی سے معاشرے میں عدم توازن پیدا ہورہا ہے۔  اس حوالے سے ہماری نوجوان نسل ابہام کا شکار ہے۔ اس ترقی کو دیکھ کر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم پیچھے رہ گئے ہیں۔ دنیا میں اس وقت سب سے بڑا چیلنج موبائل فون ہے۔ اس کے مثبت اثرات کے ساتھ ساتھ کیا منفی اثرات ہیں اور ان سے کیسے بچنا ہے؟ ہم سوشل میڈیا کو بند تو نہیں کرسکتے لیکن اپنے بچوں کو اچھے اور برے کی تمیز سکھا سکتے ہیں۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم اپنے معاشرے میں اجتہاد نہیں ہونے دیتے حالانکہ اجتہاد قرآن کا حکم ہے۔ ہماری بد قسمتی ہے کہ موقف سے اختلاف رائے رکھنے والے کو کافر قرار دے دیتے ہیں۔ جب ایسی سوچ ہو تو ہم آگے کیسے بڑھ سکتے ہیں۔ کفر کے فتووں کا خوف نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے مقابلے میں مغرب میں اسلام پر زیادہ تحقیقی کام ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان صلاحیتوں سے مالا مال ملک ہے ۔ یہاں سب کچھ ہے صرف باکردارقیادت کی کمی رہی ہے۔ جب کوئی کرپٹ لیڈر قوم کا پیسہ چوری کرے تو ملک کے لئے اس سے زیادہ بڑا عذاب کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ وزیراعظم نے کہا کہ خود غرض آدمی کبھی لیڈر نہیں بن سکتا۔ جو اپنی ذات سے باہر نکل کر سوچے وہ قائد اعظم کی شکل میں لیڈر بنتا ہے۔ ہمارے ملک کی بدقسمتی ہے کہ یہاں لیدڑ شپ کا معیار یہ تھا کہ کتنا پیسہ کمایا اور اپنے کتنے رشتہ داروں کو اوپر لے آئے۔ تاہم مدینہ کی ریاست میں میرٹ تھا۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس یونیورسٹی میں دنیا کے دانشوروں کے ساتھ مل کر تحقیق کے مواقع ہوں گے۔ اگر کسی ملک میں نبی ﷺ کی شان میں گستاخی ہوتی ہے تو مسلمان سربراہان اور اسلامی سکالرز مل کر ایسا مدلل جواب دیں کہ کوئی ملک یہ نہ کہہ سکے کہ مسلمان اظہار رائے کے خلاف ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ جہاں اخلاقیات تباہ ہوں گی وہاں سونا، ہیرے جواہرات بھی نکلیں پھر بھی وہ ریاست نہیں بچ سکتی۔ مدینہ کی ریاست کا تصور امر بالمعروف و نہی عن المنکر تھا۔ وزیر اعظم نے معاشرے میں بدعنوانی کی تباہ کاریوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ بدعنوانی سے معاشرہ تباہ ہو جاتا ہے اور اگر ہم پاکستان کو دیکھیں تو 1985 کے بعد اس ملک میں سب سے بڑی تباہی بدعنوانی کی صورت میں آئی۔ ایسا معاشرہ جس میں محنت کرنے  والا یہ دیکھے کہ قبضہ گروپ بڑے بڑے پلازے بھی کھڑے کرلیتا ہے اور وہ اسمبلیوں تک بھی پہنچ جاتا ہے تو ایسے معاشرے میں اخلاقیات پروان نہیں چڑھ سکتیں۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ سپریم کورٹ سے سزا یافتہ شخص جھوٹ بول کر ملک سے بھاگا ہوا ہے۔ کرپشن کو برا نہ سمجھا تو معاشرے میں محنت کون کرے گا۔ علاوہ ازیں وزیراعظم عمران خان نے کھاد کے سٹاک کے حوالے سے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری میں ملوث عناصر کے خلاف قانونی کارروائی جاری رکھی جائے۔ وزیراعظم عمران خان سے ایسوسی ایشن آف پاکستان فزیشنز اینڈ سرجنز کے چیئرمین ڈاکٹر عثمان نے ملاقات کی۔ صحت کی سہولتوں‘ نرسنگ اور سمندر پار پاکستانی ڈاکٹرز کی صحت کے شعبے میں سرمایہ کاری پر گفتگو کی۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...