پیر فاروق بہاؤالحق شاہ
جب بھی پاکستان کی سیاسی تاریخ لکھی جائے گی تو پاکستان پیپلز پارٹی کے بغیر اس کا تذکرہ نامکمل ہوگا۔اس جماعت نے پاکستان میں ایک نیا سیاسی کلچر متعارف کروایا۔جناب ذوالفقار علی بھٹو کی کرشماتی شخصیت کی بدولت ہمارے ہاں پہلی مرتبہ سیاست کو عوامی رنگ ملا۔سیاست ڈرائنگ روم سے نکل کر گلی محلے تک آ نکلی۔ ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ایوب خان کی کابینہ میں برسوں بطور وزیر خارجہ اور مختلف شعبوں کے وزیر کی حیثیت سے شامل رہے۔ 1967 میں، بھٹو کے ایوب خان سے اختلافات پیدا ہو ئے اور بالآخر انہوں نے اپنی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی۔
پاکستان پیپلز پارٹی کا باقاعدہ قیام۔
جناب ذوالفقار علی بھٹو اکتوبر 1967 میں پیپلز پارٹی بنانے کا اعلان کیا۔ 30 نومبر سے یکم دسمبر 1967 تک لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن کی رہائش گاہ پر بھٹو کی قیادت میں قومی کنونشن منعقد ہوا۔ جے اے رحیم، عبد الحفیظ پیر زادہ، شیخ عبدالرشید، یحییٰ بختیار، معراج محمد خاں، تاج محمد لنگاہ، ممتاز بھٹو، محمود علی قصوری، حنیف رامے، حیات محمد خان شیر پاؤ، غلام مصطفی کھر، مختار رانا، خورشید حسن میر، کامریڈ غلام محمد، حامد سرفراز، ملک نوید احمد، احمد خاں وغیرہ اس میں شامل ہوگئے۔16دسمبر 1967ء کو حیدر آباد میں حزب اختلاف کے راہنما میر رسول بخش تالپور کی رہائش گاہ پر پارٹی تشکیل دینے کے فیصلے کی با ضابطہ توثیق کی گئی۔ بلا شبہ پیپلز پارٹی کے قیام کے وقت بھٹو ملک کے سب سے مقبول اور مسلمہ سیاسی راہنما تھے۔ ایوب خاں کے زوال میں ان کا کردار کلیدی تھا۔ ’’اسلام ہمارا دین، جمہوریت ہماری سیاست، سوشلزم ہماری معیشت اور عوام قوت کا سرچشمہ‘‘ کے پارٹی نعرے سے عوامی سوچ کی عکاسی ہوئی۔ اس تصور نے عام آدمی سے لے کر دانشوروں تک کو اپنے سحر میں لے لیا اور ایوب حکومت سے مایوس لوگ بھی پیپلز پارٹی کی طرف دیکھنے لگے۔
بھٹو کی پہلی گرفتاری۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے قیام کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کے طوفانی دورے شروع کر دیے سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے نومبر 1968 ء میں ذوالفقار علی بھٹو کو حراست میں لے لیا گیا۔ تب سے مارچ 1969ئ تک بھٹو کی کرشماتی لیڈر شپ عوامی محاذ گرم کر چکی تھی۔25 مارچ 1969ء کو ایوب کے سبک دوش ہونے اور اقتدار جنرل یحییٰ خاں کے سپرد ہوجانے پر ملک میں عام انتخابات 1970 میں کروانے کا اعلان کر دیا گیا۔ 300منتخب نشستوں کے لیے قومی اسمبلی کے لیے 7دسمبر اور صوبائی کے لیے 17 دسمبر کو پولنگ ہوئی ۔مزدور کسان طلبہ، وکلا اور مخصوص شعبوں سے تعلق رکھنے والے دھڑوں نے پی پی پی کی انتخابی مہم میں ’’روٹی کپڑا اور مکان‘‘ کے دلکش نعرے پر کھل کر اس کی حمایت کی۔ سوشلسٹ نظریات کے باوجود پارٹی نے ان تمام اسٹیک ہولڈرز کو اپنے ساتھ ملایا جو اس پاور سیکٹر کا حصہ تھے۔
پیپلز پارٹی کو پہلے اقتدار کی منتقلی۔
دسمبر 1971 کوسقوط مشرقی پاکستان کے بعد باقی مندہ ملک میں1970ء کے انتخابات کے تقریباً 2 سال بعد، اقتدار پیپلز پارٹی کے سپرد کرنے کا فیصلہ ہوا۔ اس دوران بھٹوصدر کے ساتھ ساتھ کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ بھی تفویض ہوا۔
پیپلز پارٹی اور شملہ معاہدہ۔
پاکستان پیپلز پارٹی کو جب اقتدار منتقل کیا گیا تو اس وقت کٹا پھٹا پاکستان ان کا منتظر تھا۔پانچ ہزار مربع میل رقبہ بھارت کے قبضے میں تھا اور لگ بھگ 90 ہزار سے زائد قیدی بھی ہندوستان کی قید میں تھے۔پاکستانی قوم کا مورال ڈاون تھا۔ان حالات میں ذوالفقار علی بھٹو نے ایک ذہین لیڈر کا کردار ادا کرتے ہوئے عالمی ذرائع استعمال کیے اور بھارت میں اندراگاندھی کے ساتھ کامیاب مذاکرات کے نتیجے میں شملہ معاہدہ کر کے 90ہزار قیدیوں کی واپسی ممکن بنائی۔
1973کا دستور۔
پیپلز پارٹی کا ایک بڑا کارنامہ قوم کو متفقہ آئین فراہم کرنا تھا۔14اگست 1973 سے نافذ ہونے والے اس دستور نے پاکستان کو ایک وحدت عطا کی۔اس پر تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے اتفاق کیا یہ دستور پاکستان کی فیڈریشن کے استحکام کا بنیادی ضامن مقرر کردیا گیا۔پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں پاکستان کو مسلم دنیا میں ایک اہم مقام حاصل رہا۔ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی شخصیت کی بدولت پوری دنیا میں ایک اپنی الگ شناخت بنائی۔اور تمام مسلم دنیا ان پر اعتماد بھی کرتی تھی۔اس اعتماد کا عملی اظہار تب ہوا جب 1974 میں مسلم دنیا کی اسلامی سربراہی کانفرنس لاہور میں منعقد ہوئی۔تمام اسلامی سربراہان پاکستان میں تشریف لائے۔ اسلامی سربراہی کانفرنس کے انعقاد سے ایک طرف تو پاکستان کا مثبت امیج پوری دنیا کے سامنے واضح ہوا تو دوسری طرف تمام اسلامی دنیا نے پاکستان کو اس کے مقام کے مطابق عزت دی۔یہ ایک ایسا روح پرور منظر تھا کہ جس کو دیکھنے کے لیے مسلم امہ کی آنکھیں ترس گئی تھی بادشاہی مسجد لاہور میں تمام اسلامی دنیا کے سربراہوں نے ایک امام کے پیچھے نماز ادا کی۔اور مشترکہ اعلامیہ پر دستخط کیے۔بلاشبہ یہ ذوالفقارعلی بھٹو اور پاکستان پیپلز پارٹی کا ایک اہم کارنامہ تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے تمام مذہبی اور پارلیمانی جماعتوں کے مطالبے پرپارلیمان کی مشترکہ کاوشوں سے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا۔پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے شروع کرنے کا سہرا ذوالفقار علی بھٹو کے سر ہے۔انہوں نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو ترقی دینے کے لیے عملی اقدامات کیے۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو بیرون ملک سے پاکستان لانے میں انہوں نے نے بھرپور کردار ادا کیا۔
1977 کے انتخابات میں پیپلزپارٹی پر دھاندلی کے سنگین الزامات عائد کیے گئے۔ تحریک نے تحریک نظام مصطفی کی شکل اختیار کر لی۔اور 5جولائی 1977 کو ملک میں ایک بار پھرمارشل لا نافذ کردیا گیا ۔پیپلز پارٹی پر آمریت کی یہ رات طویل ہوتی گئی گئی۔اپریل 1979 کو ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔اس دوران قید بند پھانسیوں ، جبری بر طرفیوں نے پور ملک کو انتقام کے آسیب میں مبتلا رکھا۔اور یوں پیپلز پارٹی پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا۔ بعد میں محترمہ بے نظیر بھٹو دو مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوئیں۔2008 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کو ایک مرتبہ پھر حکومت ملی۔لیکن ہر دور کی منتخب جمہوری حکومتوں کو اپنے علاوہ ماضی کے سیاہ و سفید کے مالک حکمرانوں کی نا اہلی کا بھی جواب دہ سمجھا جاتا رہا۔2013 تک پیپلز پارٹی مرکز اور سندھ میں بر سر اقتدار رہی،اور 2018 کے بعد سے اب تک سندھ میں اس کی حکومت قائم ہے۔اگلی نسل تک اس جماعت کی جد جہد کے نتیجے میں اب بلاول بھٹو زرداری ملک کے پسے ہوئے طبقات کیلئے امید کی کرن ہے
پاکستان پیپلز پارٹی۔خدمات اور تاریخ کے آئنے میں
Nov 30, 2021