دیکھنے ہم بھی گئے تھے پر تماشا نہ ہوا۔ ہم سے مراد ہم نہیں، ہم جیسے اور بہت سے دوسرے تھے جو دور دراز سے ، خاص طور پر کے پی کے سے آئے تھے کہ فیصلہ کن تماشا ہو گا لیکن ان کی امیدوں پر آس پڑ گئی جب خان اعظم نے تحریک جاری رہے گی کا اعلان کر کے معاملہ اگلے تماشے پر ٹال دیا یہ کہہ کر کہ اسمبلیوں سے باہر آ جائیں گے۔ اس وقت انہوں نے اسمبلیاں توڑنے کے الفاظ تو استعمال نہیں کئے لیکن مطلب یہی تھا جو بعدازاں ظاہر بھی ہو گیا۔
اسمبلیاں ٹوٹیں گی نہ باجماعت استعفے آئیں گے۔ کم سے کم سو فیصد تو نہیں آئیں گے۔ اس بات کو طے شدہ ہی سمجھئے لیکن مقصود گھر کی رونق کو ایک مسلسل ہنگامے پر موقوف رکھنا ہے اور وہ خیر سے حاصل ہو رہا ہے۔ ہنگامہ جاری ہے۔ ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا والا معاملہ ہے (یا شاید نہیں ہے)۔
__________
تماشے کے سنسنی خیز ہونے کی مسلسل خوشخبریاں خود تماشا گروں نے ہی سنائی تھیں۔ یہ کہ 30 لاکھ لوگ آئیں گے، نظام کو نظام دین سمیت بہا کر لے جائیں گے۔ پنڈی میں ڈھکے چھپے نہیں بلکہ کھلے الفاظ میں کسی جگہ کا گھیراﺅ اور محاصرہ کرنے کی خبریں تو ٹی وی پر ”آن ایر“ بھی کہی گئیں۔ یہ بھی بتایا گیا کہ بعدازاں عوام کا یہ بحر بے کراں اسلام آباد کا رخ کرے گا۔ اور خان اعظم کے الفاظ بھی آپ کو یاد ہوں گے کہ رانا ثنا ءاللہ، تمہارے فرشتوں کو بھی خبر نہیں ہو سکتی جو ہم اسلام آباد پہنچ کر تمہارے ساتھ کرنے والے ہیں۔
اعلان شدہ تخمینہ 30 لاکھ افراد کا تھا۔ اگرچہ کہا یہ بھی گیا کہ حقیقی تعداد اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے لیکن جو ”دستاویزی اطلاعات“ پارٹی ذرائع سے ملیں، ان کے مطابق کے پی کے کی حکومت اور پارٹی تنظیموں کو 60 ہزار افراد لانے کا ہدف دیا گیا تھا۔ پنجاب کے لیے یہ ہدف 30 ہزار کا اور باقی کے دس ہزار اسلام آباد اور پنڈی سے آنے تھے۔ یعنی ایک لاکھ افراد کا ”پوشیدہ“ ہدف تھا۔
جلسہ سڑک پر ہوا۔ سٹیج سے لے کر جلسے کے آخری کنارے کی لمبائی ساڑھے چار سو گز تھی۔ خوشخطی کے نمبر دے دئیے جائیں تب بھی 30 ہزار افراد۔ سکیورٹی اہلکار ساڑھے بارہ ہزار، راولپنڈی کا سینٹری عملہ سینکڑوں میں، اخبار نویس، کیمرے والے کتنے؟۔ اور باقی ماندہ کتنے؟ ۔رہے نام اللہ کا۔ بہرحال، خان صاحب کا ”ظاہری“ یقین کامل اب بھی یہی ہے کہ وہ دوتہائی نہیں، تین چوتھائی بھی نہیں، تو بٹہ دس کی اکثریت سے عام الیکشن جیت لیں گے۔ اوپر والیا....لگیاں دی لج رکھ لئیں۔
__________
فرمایا، چاہتا تو ملک کو سری لنکا بنا سکتا تھا۔ چاہتا تو کی جگہ چاہتا تو یہ تھا کے لفظ لگا دیں تو مفہوم درستگی کے زیادہ قریب ہو جاتا۔ ”محاربہ“ تو دل ناتواں نے خوب کیا لیکن ملک سری لنکا نہ بن سکا۔ خیر، یہ تمہید اس لیے باندھی کہ پنڈی میں جس ”محاصرے“ کے ارادے تھے، ان سے ہاتھ اٹھانے کے لیے وجہ بتانا تھی۔ پھر حاضرین سے پوچھا اسلام آباد چلیں؟۔ حاضرین نے زوردار سیٹیوں سے جواب دیا۔ خاموشی نیم رضا مندی ہوتی ہے لیکن کیا ”سیٹی“ بھی نیم رضا مندی ہوتی ہے؟ یا پھر نارضا مندی ؟۔ خان صاحب یہ سمجھنے سے قاصر رہے چنانچہ اذن رخصت دیا اور اذن رخصت لیا اور یوں تماشا ہونے سے پہلے ہی قناتیں اٹھ گئیں۔
__________
معاملہ اب اسمبلیاں توڑنے نہ توڑنے پر آ ٹھہرا ہے۔ اتحادی جماعتیں پنجاب اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد لانا چاہتی ہیں لیکن وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے فرمایا ہے کہ جب تک اجلاس ”سیشن“ میں ہو، تحریک عدم اعتماد آ ہی نہیں سکتی اور پنجاب اسمبلی پچھلے جولائی سے مسلسل ”ان سیشن“ ہے۔
تحریک عدم اعتماد کس آئین کے تحت نہیں آ سکتی؟۔ 1973ءکے آئین کے تحت تو بالکل آ سکتی ہے۔ آئین میں ہے کہ اجلاس ان سیشن ہو تو ”گورنر راج“ نہیں لگایا جا سکتا۔ عدم اعتماد کی تحریک بہرصورت آ سکتی ہے۔ سیشن میں نہ ہو تو ریکوزیشن دینا پڑے گی، سیشن میں ہو تو بنا ریکوزیشن کے ، کسی بھی وقت ٹیبل کی جا سکتی ہے۔
چودھری صاحب کس آئین کے حوالے سے یہ مناھی بیان کر رہے ہیں؟۔ شاید پنجاب اسمبلی کے سیکرٹریٹ نے یہ آئین خفیہ ہی خفیہ بنا لیا ہو۔ اخبار نویس حضرات ان دنوں پنجاب اسمبلی سیکرٹریٹ کو احتراماً گجرات سیکرٹریٹ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
تحریک عدم اعتماد کے آنے یا نہ آنے کا انحصار اتحادی جماعتوں پر ہے، ”بدقسمتی“ سے گجرات سیکرٹریٹ کے خفیہ آئین سے نہیں۔
__________
پرویز الٰہی صاحب کے اس اعلان سے پی ٹی آئی والے خورسند ہوئے کہ عمران خان نے کہا تو اسمبلی توڑنے میں ایک منٹ نہیں لگاﺅں گا۔
غالب کا لطیفہ یاد آ گیا۔ کسی نے پوچھا، میاں نوشہ ، اس رمضان میں کتنے روزے رکھے؟۔ جواب دیا، میاں، بس ایک نہیں رکھا۔ سوال کرنے والا خوش ہو گیا کہ 29 رکھے، بس ایک نہیں رکھا۔ غالب کے جواب میں ایک اور نہیں کے بیچ میں ”بھی“ کا مخفی لفظ بھی شامل تھا۔
چودھری صاحب یقین دہانیاں کرانے کے فن میں طاق ہیں۔ پرویز مشرف پر جاں قربان کرنے، انہیں وردی میں دس بار منتخب کرانے کے وعدے کیا کرتے تھے۔ جب مشرف کی رخصتی ہو گئی تو پرویز الٰہی نے زرداری کی کابینہ میں شامل ہونے میں، واقعتا ایک منٹ نہیں لگایا۔
برسبیل تذکرہ، دس بار وردی میں منتخب کرانے کے وعدے پر عمل ہو جاتا تو پرویز مشرف نے 2057ءتک صدر رہنا تھا۔
__________
اہم ادارے کی قیادت تبدیل ہو گئی، عمران جسے گورد گورکھ ناتھ یعنی ہر مشکل کا حل مانتے، دلبر جانتے تھے، وہ قیادت پر کیا آتا، ادارے ہی سے فارغ ہو گیا
وہ شخص تو شہر ہی چھوڑ گیا، ”اب“ بال بناﺅں کس کے لیے
__________
جو ہائبرڈ تجربہ 2017 ءکے شروع میں آغاز کیا گیا، وہ انجام کو پہنچا۔ اب جبکہ سونامی گزر گیا ہے تو منظر وہی ہے جو سونامی گزرنے کے بعد نظر آیا کرتا ہے۔ تباہ عمارتیں، ہر طرف ملبے کے ڈھیر، سڑکیں غائب، راستے مسدود، فضا آلودہ ، کباڑ ہر طرف پھیلا ہوا، بو کے بھبکے اور فریاد کرتی، بلکتی تڑپتی ہوئی خلق خدا۔
اب اس ملبے کو کس نے سمیٹنا ہے؟ تعمیر نو کس نے شروع کرنی ہے، کوئی بتانے کیلئے تیار نہیں۔ شہباز شرف کی ”پرواز“ تھمے تو یہ ملبہ بھی دیکھ لیں!
__________