سب ادھر ہی دیکھ رہے ہیں!!!!


جنرل عاصم منیر نے پاک فوج کے سترہویں سربراہ کی حیثیت سے ذمے داریاں سنبھال لی ہیں۔ جی ایچ کیو میں کمان کی تبدیلی کے حوالے سے ہونے والی پروقار تقریب کے مہمان خصوصی سبکدوش ہونے والے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ تھے۔تقریب میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی، مسلح افواج کے سربراہان، سینئرحاضرسروس اورریٹائرڈفوجی افسران ، ان کی فیملیز کے علاوہ وفاقی سیکرٹریز بھی شریک ہوئے۔ جنرل عاصم منیر کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کے قائدین اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔ افواجِ پاکستان کی سربراہی بہت بڑا اعزاز ہے، بہادر، غیور افواج اور ایٹمی صلاحیت کے حامل ملک کی فوج کے سربراہ کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ خطے میں پاکستان کی حیثیت ہر گذرتے دن کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔ پاکستان نے گذشتہ چند برسوں میں جس انداز سے علاقائی سیاست میں اپنا کردار ادا کیا ہے ان فیصلوں سے پاکستان کی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر سے اچھی توقعات ہیں۔ کمان کی تبدیلی تو فوج میں ہوئی ہے لیکن سیاسی قیادت بھی یہاں اپنے لیے کوئی راستہ ڈھونڈنے کی کوشش کر رہی ہے۔ گوکہ فوج کی طرف سے سیاسی معاملات سے لاتعلقی کا نہایت واضح پیغام آ چکا ہے اور سیاستدان بھی فوج کو اس کے آئینی کردار تک محدود کرنے کے بیانات دیتے رہتے ہیں لیکن ان بیانات کے باوجود آج بھی تمام سیاسی جماعتیں اور اعلیٰ سیاسی قیادت ادھر ہی دیکھ رہی ہے جہاں سے نیوٹرل رہنے کا پیغام کھلے الفاظ میں مل چکا ہے لیکن اس کے باوجود آج بھی سب ادھر دیکھ رہے ہیں۔ سیاست دان شاید منتظر ہیں کہ کوئی نیا لائحہ عمل طے پائے گا، کوئی نیا راستہ ملے گا، کوئی نئی امید نظر آئے گی، کسی کو سہولت ملے گی، کسی کو سختی کا پیغام ملے گا، کسی کو سیاسی فائدہ ہو گا، کوئی سیاسی جماعت یہ سمجھتی ہے کہ جنرل عاصم منیر کے چیف آف آرمی سٹاف بننے سے اس کا فائدہ اور مخالف سیاسی جماعت کا نقصان ہو گا جبکہ ایک سیاسی جماعت یہ سمجھتی ہے کہ اسے فوج میں اعلیٰ سطح کی اس تبدیلی سے نقصان جبکہ اس کی مخالف سیاسی جماعتوں کو فائدہ ہو گا۔ اس بارے فریقین غلط فہمی کا شکار ہیں کیونکہ یاد رکھیں نئے چیف آف آرمی سٹاف سے اگر کسی کو فائدہ ہونا ہے تو وہ صرف پاکستان کو ہونا ہے۔ سیاسی جماعتوں کو سیاسی فائدے کے لیے ادھر دیکھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ افواجِ پاکستان کے نئے سربراہ کے لیے پاکستان سب سے پہلے اور پاکستان ہی سب سے اہم ہے۔ اس لیے سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ اپنی سیاسی لڑائیاں سیاسی میدان میں لڑیں، ملک میں سیاسی و معاشی استحکام کے لیے کام کریں۔ اگر آج فواد چودھری امریکہ کے سفیر سے ملاقات کر سکتے ہیں، وہ کہ جنہیں پی ٹی آئی کی حکومت کے خاتمے کی سب سے بڑی وجہ قرار دیا گیا ان سے بات چیت ہو سکتی ہے تو پھر جنہوں نے حکومت بدلی ہے ان سے بات کرنے میں کیا حرج ہے۔ کیوں جمہوری رویے صرف اپنے فائدے تک محدود ہیں۔ اگر پی ٹی آئی حکومت میں آتی ہے پھر بھی اسے ان سیاسی جماعتوں کی ضرورت پڑنی ہے۔ پھر سیاسی جماعتوں کے ساتھ ملک دشمنوں جیسا سلوک کرنے یا تضحیک آمیز رویہ اختیار کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ سیاسی معاملات حل کرنے کے لیے سیاسی قیادت نئے آرمی چیف کی طرف دیکھنے کے بجائے اپنے رویوں پر نظر ثانی کرے۔ 
دوسری طرف پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان کی طرف سے اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے اعلان کے بعد ملکی سیاست میں غیر معمولی حالات پیدا ہوئے ہیں۔ پنجاب حکومت اور اپوزیشن نے اپنے اپنے گھوڑے دوڑانے شروع کر دئیے ہیں۔ گوکہ پاکستان تحریکِ انصاف نے اسمبلیوں سے نکلنے کا اعلان تو کر دیا ہے لیکن اس اعلان کے بعد سے اب تک یہ محسوس ضرور ہو رہا ہے کہ پی ٹی آئی اس معاملے میں ابہام کا شکار ہے۔ جنہوں نے اسمبلیوں سے نکلنا ہو وہ اعلان کرنے کے بعد مشاورت نہیں کرتے۔ وہ ایسے کئی سیاسی اعلان کر چکے ہیں جن پر بعد میں یو ٹرن لیا گیا یہ اعلان فیصلے میں تبدیل ہوتا ہے یا نہیں اس حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہے لیکن اس اعلان کو فیصلے میں بدلنا خاصا مشکل ہو گا۔ ویسے بھی اس معاملے میں پارٹی کی اعلیٰ سطح پر مشاورت ضرور ہوئی ہو گی لیکن پنجاب کے سٹیک ہولڈرز آن بورڈ نہیں تھے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے کہا کہ ہم سے پوچھا تو نہیں گیا لیکن ہم ان کے اس فیصلے کے ساتھ ہیں۔ اسی طرح مونس الٰہی بھی بارسلونا میں تھے وہ پاکستان سے باہر تھے اس لیے یہ کہنا کہ سب لوگ اس حوالے سے ایک ہی سوچ رکھتے ہیں تو یہ مشکل ہو گا۔ عمران خان اراکینِ اسمبلی سے بات چیت کرتے ہوئے انہیں اعتماد میں بھی لینے کی کوشش کریں گے جب کہ دوسری طرف اراکین اسمبلی دائیں بائیں ضرور دیکھیں گے اور مسلم لیگ ن اس حوالے سے کام کر سکتی ہے اور وہ ایسے معاملات کو اپنے لیے سازگار بنانے کا تجربہ بھی رکھتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف کے ساتھ نہ چلنے کا فیصلہ کرنے والے اپنی سیٹ چھوڑ دیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس وقت صوبائی اسمبلی میں موجود لوگوں کے لیے بھی فیصلہ کرنا ذرا مشکل ہو چکا ہے کیونکہ وہ لوگ اب یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان تحریکِ انصاف کے ساتھ رہنے سے کم از کم ان کے آئندہ پانچ سال تو محفوظ ہو سکتے ہیں کیونکہ عوام کا رجحان پی ٹی آئی کی طرف ہے اور عوامی مقبولیت میں عمران خان کی جماعت میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کی جماعت سے بہتر پوزیشن میں نظر آتی ہے۔ پھر عمران خان کو صحت کے مسائل کا بھی سامنا ہے۔ وہ سیاسی سرگرمیوں میں حصہ تو لے رہے ہیں لیکن خراب صحت کی وجہ سے ان کی ملاقاتیں محدود ہیں۔ پس صوبائی اسمبلیوں سے نکلنے کے اعلان کو ماضی میں کیے گئے ان کے کئی اعلانات کی طرح ابہام سے بھرپور اعلان تو قرار دیا جا سکتا ایسا اعلان جسے فیصلے میں بدلنے کے لیے یا اس کی نوک پلک سنوارنے کے لیے طویل مشاورت ، قانونی و آئینی پہلوو¿ں کا بغور جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ لازم نہیں کہ اعلان ہو گیا ہے تو وہ اسمبلیوں سے باہر آ جائیں گے یہ اعلان ہوا ہے اس کے بعد اسمبلیوں میں بیٹھے رہنے کا ایک اعلان بھی ہو سکتا ہے۔ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کے لیے بھی کنفیوژن ضرور ہے کیونکہ نمبر گیم میں انہیں کھل کر کھیلنے کا موقع نہیں مل رہا۔ آئینی و قانونی پہلوو¿ں پر وہ بھی غور ضرور کر رہے ہیں لیکن کسی حتمی نتیجے پر پہنچنا ان کے لیے بھی مشکل ہے۔

ای پیپر دی نیشن