گھر سے دفتر کیلئے نکلا تو اسلام آباد کی مختلف سڑکوں پر کنٹینرز نہ پاکر خوشگوار احساس ہوا۔ جڑواں شہروں کے باسی کئی ماہ سے گھٹن زدہ ماحول میں جی رہے تھے ۔ اس گھٹن کے خاتمے کا سہرا سابق وزیر اعظم عمران خان کے سر جاتا ہے جن کی مدبرانہ سوچ اور حکمت عملی سے حالات کشیدگی کی طرف نہیں گئے۔ سیاسی کھینچا تانی اور مخالفت کا جواب سیاسی انداز میں ہی اچھا لگتا ہے لیکن ماضی قریب میں سیاسی حالات خونی تصادم کی طرف جاتے دکھائی دے رہے تھے جس سے ظاہر ہے نقصان ملک کا ہی ہونا تھا۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ عمران خان کے اسلام آباد داخل نہ ہونے اور لانگ مارچ خاتمے کے اعلان سے وطن عزیز پرمنڈلاتے ہوئے غیریقینی کے سیاہ بادل چھٹ گئے ہیں۔ کچھ حلقے خان صاحب کے اس عمل کو سیاسی شکست اور فیس سیونگ بھی قرار دے رہے ہیں ، شاید وہ یہی چاہتے ہیں کہ تصادم کی سیاست سے ان کی سیاسی دُکان چلتی رہے۔جیسے جیسے سیاسی حالات بہتری کی جانب جاتے دکھائی دے رہے ہیں ویسے ویسے وطن دشمن عناصر کی پریشانی بھی بڑھ رہی ہے۔ اس حوالے سے ٹی ٹی پی کا نیا اعلامیہ بھیملک بھر میں موضوع بحث بنا ہوا ہے۔بہر حال مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے۔
عمران خان نے اگرچہ راولپنڈی جلسے میں صوبائی اسمبلیوں سے نکلنے (تحلیل) کرنے کا اعلان تو کر دیا ہے لیکن اس کے مضمرات پر نظر رکھنا بھی ضروری ہے۔ صوبائی اسمبلیوں سے استعفے دینے یعنی نظام کا حصہ نہ رہنے کا فیصلہ تو عمران خان کے اختیار میں ہے البتہ اسمبلیوں کو تحلیل کرنے پر کئی آئینی موشگافیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس ضمن میں الیکشن کمیشن کی وضاحت انتہائی اہمیت کی حامل ہے جس کے مطابق صوبائی اسمبلی تحلیل ہونے پر قومی نہیں بلکہ متعلقہ صوبائی اسمبلی کاالیکشن دوبارہ ہوگا، جتنے بھی اراکین مستعفی ہونگے۔ 60روز میں ضمنی انتخابات کروادیئے جائیں گے۔ترجمان الیکشن کمیشن کہتے ہیں کہ’’ کسی بھی صوبائی حلقے میں انتخابات پر تقریباً پانچ سے سات کروڑ روپے خرچ ہونگے، اگرچہ ایک ہی سال میں ضمنی اور عام انتخابات کرانا مشکل ہے مگر ہم قانون کے پابند ہیں‘‘۔عام انتخابات میں بمشکل 8ماہ باقی ہیں ۔ ایسے میں اگر ملکی معاشی حالات کو مد نظر رکھا جائے تو اتنے بڑے پیمانے پر ضمنی انتخابات کروانا محض قومی خزانے پر مزید بوجھ ڈالنے کے مترادف ہوگا۔ اس سے قبل بھی تحریک انصاف کا لانگ مارچ ملک و قوم کو اربوں روپے میں پڑا ہے۔ عمران خان نے جس طرح کشیدگی سے بچنے کیلئے لانگ مارچ کے خاتمے اور اسلام آباد میں نہ داخل ہونے کا دانشمندانہ فیصلہ کیا ہے امید ہے اسی طرح وہ قومی خزانے کو ممکنہ نقصانات سے بچانے پر غور کریں گے۔عمران خان کا مذکورہ فیصلہ اگرچہ حتمی نہیں لیکن اس پر تیزی سے مشاورت ہو رہی ہے۔ باخبر ذرائع کے مطابق تحریک انصاف اور اس کی حلیف جماعتوں کے متعدد رہنما اس حق میں نہیں کہ سسٹم سے نکل جائیں، اس عمل کو وہ اپنی سیاسی موت سمجھتے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ اسمبلیوں سے نکلنے کا فیصلہ کر کے عمران خان اپنا گریبان پی ڈی ایم کے ہاتھوں میں دینے کی بجائے انہی اسمبلیوں سے اس نظام کی اصلاح کے لئے قراردادیں منظورکروائیں اور ایسی قانون سازی یقینی بنائیں جو پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے میں مددگار ثابت ہو۔ایک بڑی سیاسی ڈویلپمنٹ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کا حالیہ بیان تھا جس میں انہوں نے عندیہ ظاہر کیا ہے کہ موجودہ اسمبلی کی مدت میں 6ماہ کا اضافہ کیا جاسکتا ہے ، اس بارے میں آئین کیا کہتا ہے یہ بات تو آئینی ماہرین ہی بتاسکتے ہیں ۔ البتہ رانا ثناء اللہ کہتے ہیں کہ لوگوں کو ریلیف دینے کیلئے 4 سے 6 مہینے درکارہوں گے، 6مہینے بعدہم اس پوزیشن میں ہونگے پنجاب میں الیکشن جیت سکتے ہیں۔ بیان کے بین السطور دیکھا جائے تو پی ڈی ایم کی پریشانی بھی واضح ہو جاتی ہے بالخصوص پاکستان مسلم لیگ کا سیاسی مستقبل کچھ زیادہ
اچھا نہیں دکھائی دیتا اور پیپلز پارٹی کی صورتحال بھی اس سے ملتی جلتی ہے۔ ان تمام تر حالات میں تحریک انصاف اچھا خاصا سیاسی فائدہ اٹھا سکتی ہے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت ختم کرکے پی ڈی ایم اتحاد نے اس کی مقبولیت میں کئی گنا زیادہ اضافہ کر دیا ہے۔ اس لئے چیئرمین پی ٹی آئی کو چاہئے کہ فی الحال اسمبلیوں میں رہتے ہوئے سیاست کریں اور 2023 ء کے عام انتخابات میں بھرپور تیاری کے ساتھ میدان عمل میں اتریں ۔ اس سے دو بڑے فائدے ہوں گے ، ایک یہ کہ وہ ملک و قوم کی خطیر رقم ضمنی انتخابات کی ’’پریکٹس‘‘ پر خرچ ہونے سے بچا لیں گے اور دوسرا انہیں عام انتخابات کی تیاری کیلئے بھرپور وقت ملک جائے گا۔ ویسے بھی عمران خان کا بیا نیہ اور پیغام ان کے کارکنان بلکہ ملک کے ہر شہری تک پہنچ چکا ہے ۔