گزشتہ دنوں سابق وزیر اعظم اورتحریک انصاف کے سربراہ عمران خان پر قاتلانہ حملے کی ایف آئی آر میں غیر معمولی تاخیربہت زیر ِ بحث رہی ۔ وزیر آباد کے تھانے سے بات نکلی اور اسلام آباد عدالت ِ عظمیٰ تک جا پہنچی۔3نومبر کے واقعہ کی ’’فرسٹ انفارمیشن‘‘ پولیس کو 7نومبر کو ملی ، ’’جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے‘‘۔ ایک طرف سے خان صاحب کے انتخاب کردہ تین افراد کی نامزدگی پر اصرار اور دوسری جانب سے حرف ِ انکار،یوں ’’ہوئی تاخیر تو کچھ باعث ِ تاخیر بھی تھا‘‘۔بالآ خر پولیس نے چار دن بعد وہی کیا ،جوپہلے دن بھی کرسکتی تھی۔
عمران خان ایک سیاسی جماعت کے سربراہ اور مقبول رہنما ہیں،اس لیے ایف آئی آر میں تاخیر پر اتنا واویلا ہوا، وگرنہ کسی جرم یا واقعہ کی ابتدائی اطلاعی رپورٹ کو لٹکانا ’’رِ یت اس نگر کی ہے اور جانے کب سے ہے‘‘۔عام شہری (اگر وہ واقعی عام سا ہے تو) یہاں بغیر کسی اثرو رسوخ کے اپنے ساتھ ہوئے کسی جرم کی ایف آئی آر کرا کے دکھائے ۔اگر پولیس نے اسے فرنٹ ڈیسک سے بہلا پھسلا کر گھر واپس نہ بھیج دیا تو کہیے گا۔پہلے پہل تو دیہات کے سادہ لوح لوگ فرنٹ ڈیسک پرجمع کروائی گئی شکایت کی رسیدملنے پر اور چھوٹے موٹے تھانیدار کے رابطے کرنے پر سمجھتے تھے کہ ’’پرچہ کٹیا گیا اے ‘‘۔ یہاں عام طور پر قتل جیسے سنگین جرم کی ایف آئی آرفوری درج ہوتی ہے۔ مطلب جہاں لاش پڑی ہو اورجائے وقوعہ پر ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر کی گاڑی کھڑی ہو۔بصورتِ دیگر ڈکیتی وغیرہ اورمالی معاملات سے متعلق جرائم کی ایف آئی آر درج کرانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔پولیس کو بھی اندازہ ہوتا ہے کہ مال وزرلٹا بیٹھے فریق کی طرفداری کرنی ہے یا جس کے پاس روپیہ پیسہ آیا ہے اس کا ساتھ دینا ہے؟قانون کی رُوسے فرسٹ انفارمیشن رپورٹ کسی مقدمے کی بنیاد ہے اور اس کا مقصد مقامی تھانے میں واقعہ کی پہلی اطلاع دیکر جرم کو رپورٹ کرنا ہے۔ پاکستانی معاشرے میں ایف آئی آر کو ابتدا ئی مرحلہ کی بجائے انتہائی مقام سمجھا جاتا ہے۔ پولیس کے روبرو مدعی اور ملزم کا میچ اسی مسئلے پر پڑتا ہے۔ عزت اور ذلت ،انا اور بقا سب ایف آئی آر کروانے اور رکوانے پر منحصر ہے۔ گاؤں میں اس شخص کا اقبال بلند ہو جاتا ہے جو ’’پرچہ‘‘ کٹوا کر گھر لوٹے اور جس کے خلاف پر چہ کٹ جاتا ہے،اس کی تو گویا ناک کٹ جاتی ہے۔ آخرت کی فکر یعنی تفتیش اور ٹرائل کی اتنی پروا نہیں ہوتی،سارازورِ بازو ایف آئی آر پرلگ جاتا ہے۔ قانون کا جو مقصد تھا : کسی جرم کی پہلی اطلاع،وہ کہیں پیچھے رہ جاتا ہے۔ پولیس کو 15نمبرپر ایمرجنسی کال کے ذریعے بھی کسی جرم کی ’’فرسٹ انفارمیشن ‘‘مل جاتی ہے لیکن ایف آئی آرکے اندراج کا طریقہ آج بھی وہی پرانا ہے ۔
قانون کے مطابق جرم کے ارتکاب سے آگاہ کوئی بھی شخص ایف آئی آر درج کروا سکتا ہے لیکن ایسا بہت کم ہوتا ہے۔ایف آئی آر کے اندراج سے پہلے نہ کوئی تفتیش ہوسکتی ہے،نہ کوئی انکوائری ۔ضابطہ فوجداری میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ۔لیکن عملی صورت یہ ہے کہ مدعی کی ایک درخواست پر پولیس ملزم کی رہائش گاہ پر چھاپہ مار کر اسے اٹھالاتی ہے کہ ’’چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے‘‘۔ دونوں پارٹیز کو ٹائم دیا جاتا ہے ،تھانے میں آمنے سامنے بٹھایا جاتا ہے اور اسے ’’اکٹھ ‘‘کا نام دیکر ایس ایچ او خود اپنی ایک چھوٹی سی عدالت لگا لیتا ہے۔ ہمارے ملک میں تفتیش اور ٹرائل سے بھی زیادہ ایف آئی آر کی فکر اور اہمیت اس لیے ہے کہ جوں ہی ایف آئی آر درج ہوتی ہے ،پولیس ملزم کو گرفتار کرنے پہنچ جاتی ہے ۔ 2018 میں سپریم کورٹ نے صغریٰ بی بی کیس میں کسی شخص کی گرفتاری سے متعلق ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ کسی شخص کو محض اس بنیاد پر فوری گرفتار نہیں کرنا چاہیے کہ اسے ایف آئی آر میں بطور ملزم نامز د کیاگیا ہے ۔ تفتیشی افسرکوچاہیے کہ شکایت کنندہ کے الزامات بادی النظر میں درست ہونے سے متعلق کوئی معقول وجہ یا موزوں شہادت ریکارڈ پر آنے تک گرفتاری موخر کرے۔
ایف آئی آر اطلاع کنندہ کا موقف اورکہانی ہے۔ تفتیشی کا فرض ہے کہ خود کو اس تک محدود نہ کرے اور خودسچ اور حقائق کی تلاش کرے۔جہاں تک ایف آئی آر میں تاخیر کی بات ہے ،پولیس کے پاس اس کا کوئی قانونی جواز نہیں ۔ایک بہانہ یہ ہے کہ لوگ جھوٹی ایف آئی آرکروانے آجاتے ہیں۔ قانون نے کسی کو نقصان پہنچانے کی نیت سے جھوٹی انفارمیشن دینے والے کیلئے چھ ماہ قید اور جرمانہ کی سزا مقرر کی ہے۔اس قانون میں بہتری لا کر ،سزا بڑھا کر عملدرآمد ہونا چاہیے۔ یوں بھی مجسٹریٹ اور ہائیکورٹ کا اختیار ہے کہ الزام بے بنیاد ہونے اور ملزم کو سزا کا امکان کم ہونے پر مقدمے کے کسی بھی مرحلے پر ملزم کو رہا کیا جا سکتا ہے۔لیکن جرم پر قابو پانے کی بجائے اگر پولیس ایف آئی آر پر قابو پانے میں ہی لگی رہے تو معاشرے میں ظلم اور بدنظمی ہی بڑھے گی۔