لاہور(کامرس رپورٹر ) سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے پتھر اور ماربل کے شعبے کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے کیونکہ اس میں بے پناہ صلاحیت ہے اور یہ ملک کی معاشی ترقی اور خوشحالی میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ان خیالات کا اظہار پاکستان سٹون ڈویلپمنٹ کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر بابر معراج شامی، لاہور چیمبر کے صدر کاشف انور، چیئرپرسن پاسڈیک شماما ت الارباب، لاہور چیمبر کے ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبر چوہدری خادم حسین، لاہور چیمبر کے سابق صدور میاں محمد اشرف، عبدالباسط، الماس حیدر، سابق نائب صدور ذیشان خلیل، طاہر منظور چوہدری اور ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبران نے ماربل انڈسٹری پر آگاہی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ شماما ت الارباب نے کہا کہ پاسڈیک ایک وفاقی ادارہ ہے، پہلے دفتر آنے والے لوگوں کو آگاہی دے دی جاتی تھی لیکن اب اس شعبے کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے کاروباری برادری سے خود رابطے کیے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لاہور چیمبر میں پہلا سیشن منعقد کیا جا رہا ہے جس کا مقصد تاجروں سے رہنمائی لینا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ابھی تک ہم ماربل نکالنے کے لیے پرانی ٹیکنالوجی استعمال کر رہے ہیں، دھماکے سے ماربل کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔بابر معراج شامی نے کہا کہ ملک نیم قیمتی جواہرات، گرینائٹ، اونکس، ماربل اور راک سالٹ کے وسائل سے مالا مال ہے جسے ہمالیائی نمک بھی کہا جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے ہم ان وسائل کو صحیح طریقے سے استعمال نہیں کر رہے ہیں کیونکہ زیادہ تر حصہ خام صورت میں برآمد کیا جارہا ہے، جدید مشینری اور ٹیکنالوجی پر سرکاری و نجی سطح پر سرمایہ کاری بھی نہیں کی گئی، اٹلی سے سٹون و ماربل انڈسٹری کی ترقی کے حوالے سے معاہدہ ہوا لیکن سرخ فیتہ آڑے آگیا۔ انہوں نے کہا کہ اب حکومت سنجیدہ ہے اس شعبے کو ترقی دینا چاہتی ہے۔لاہور چیمبر کے صدر کاشف انور نے کہا کہ پاکستان کی ماربل انڈسٹری میں برآمدات کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے جس سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اعلیٰ معیار کا سنگ مرمر اور پتھر موجود ہیں لیکن پرانی ٹیکنالوجی کی وجہ سے گریڈنگ، کٹنگ، پالش اور فنشنگ کی کوالٹی اور مقدار دونوں ضائع ہو رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج بھی ہم ماربل نکالنے کے لیے بلاسٹنگ کا استعمال کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں بہت سے قیمتی پتھر ابتدائی مرحلے میں ضائع ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان سبز سلیمانی، بلیک گرینائٹ، سپر وائٹ اور دیگر اقسام کے ماربل کے حوالے سے دنیا میں نمایاں ہے لیکن ان میں سے زیادہ تر خام شکل میں برآمد کیا جا رہا ہے۔لاہور چیمبر کے صدر نے کہا کہ حکومت کو اس شعبے کی ترقی کے لیے خصوصی پالیسی متعارف کرانی چاہیے اور پتھر اور ماربل کی اس صنعت سے وابستہ افراد کو مالی معاونت فراہم کرنی چاہیے تاکہ پاکستان اس شعبے کی برآمدات میں اضافہ کر کے بھاری زرمبادلہ کما سکے۔ انہوں نے ویلیو ایڈیشن اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال پر بھی زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ چیپٹر 84-85کی وجہ سے جدید مشینری ملک میں نہیں آرہی، اس مسئلہ کو حل کیا جائے۔ مارک اپ کی زیادہ شرح صنعتی شعبے کے فروغ کی راہ میں حائل ہے، اسے فوری طور پر کم کیا جائے۔ لاہور چیمبر کی ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن چوہدری خادم حسین نے کہا کہ مقامی تاجروں کی بقا کے لیے برآمدات ناگزیر ہیں کیونکہ جن کے پاس خاطر خواہ برآمدات نہیں ہیں ان کے لیے درآمدات بھی فائدہ مند نہیں۔ انہوں نے کہا کہ عالمی سطح پر پاکستان بلاکس کے لیے جانا جاتا ہے، سلیب کے لیے نہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلاکس کی قیمت سلیب کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس پالش اور کٹنگ کی سہولت نہیں ہے۔ ہم خام شکل میں ماربل برآمد کرتے ہیں جو کاٹنے اور پالش کرنے کے بعد دوبارہ پاکستان آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان سب سے زیادہ برآمد کرنے والے ممالک کی فہرست میں کہیں نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں پتھر اور ماربل کے شعبے پر توجہ دینی چاہیے کیونکہ یہ وسائل دنیا بھر میں کم ہو رہے ہیں لیکن پاکستان کے پاس یہ وسائل وسیع پیمانے پر موجود ہیں۔