حضرت شاہ رکن الدین والعالم سہروردی رحمۃ اللہ علیہ
حافظ محمد فاروق خان سعیدی
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں اولیائے کرام اور صوفیہ عظام نے بنیادی کردار ادا کیاہے۔ بالخصوص برصغیر میں دین حق کی تبلیغ و ترویج انہیں نفوسِ قدسیہ کی شبانہ روز مساعی جمیلہ کی مرہونِ منت ہے۔ ہم تک اللہ کا دین انہیں کے توسط سے پہنچا ہے۔ صوفیہ کرام کے مقدس و پاکیزہ اور روشن و تابناک کردار، عزیمت و استقامت اور طریق تعلیم نے دنیا کو باور کرا دیا کہ یہی طریقہ جادہ حق اور صراطِ مستقیم ہے۔ان بندگانِ خدا ن نے راہِ حق میں وطن ، مال اور عزیز و اقارب کی قربانی دی اور ہر قسم کی مشکلات و مصائب کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔
اولیاء کرام کا مسکن
پاکستان میں تصوف کی تعلیمات دوسری صدی ہجری میں پہنچ چکی تھیں۔ سر زمین ملتان کو برصغیر میں اس لحاظ سے انفرادی و امتیازی مقام حاصل ہے کہ اسے بے شمار اولیائے کرام کا مسکن اور آرام گاہ بننے کا اعزاز حاصل ہے۔ اسے بجا طور پر مدینۃ الاولیاء کہا جاتا ہے۔ ہزاروں مقبولانِ خدا اور وارثانِ علوم مصطفی ؐ یہاں جلوہ افروز ہیں۔ وہ بوریا نشین جن کا فقر غیور دیکھ کر تاجِ قیصر و تختِ طائوس نظروں سے گر جائے۔ اسی خاکِ پاک میں آرام فرما ہیں۔ مدینۃ الاولیاء ملتان کی عظیم المرتبت اور جلیل القدر شخصیات میں شیخ الاسلام ، غوث العالمین حضرت بہائوالحق زکریا سہروردی ملتانی ؒکا نام ِ نامی نمایاں ہے اور آپ ہی کی نسبت سے ملتان کو جنت نشان اور غوث کی نگری کہا جاتا ہے۔ سلسلہ سہروردیہ کے بانی الشیخ ضیاء الدین ابوالنجیب عبدالقاہر سہروردی تسلیم کیے جاتے ہیںان کے خلیفہ اعظم شیخ الشیوخ حضرت شہاب الدین عمر سہروردی قدس سرہ العزیز کے ذریعے یہ سلسلہ پوری دنیا میں پھیلا۔ حضرت غوث بہائو الدین زکریا سلسلہ عالیہ سہروردیہ میں شیخ الشیوخ حضرت شہاب الدین عمر سہروردی کے بعد سب سے بڑی شخصیت اور برصغیر میں اس سلسلہ کے بانی ہیں۔
علم وحکمت ،روحانی فیض
آپ نے ظاہری تعلیم اپنے والد بزرگوار سے حاصل کی اور روحانی تربیت میں جد امجد سے فیض یاب ہوئے دونوں بزرگ، باپ اور دادا ان کو بہت محبوب رکھتے تھے۔ آپ دونوں بزرگوں کا اتنا احترام کرتے تھے کہ کبھی ان سے آنکھیں چار نہ کرتے نہ بلند آواز سے بولتے۔ شاہ رکن عالم کی ذات میں علم، تواضع، شفقت ، حلم، موافقت و مروت، عفوو حیاء جیسی جملہ صفات بدرجہ اتم پائی جاتی تھیں۔سلسلہ سہر وردیہ کے بزرگانِ دین کے سلاطین ِوقت سے تعلقات و روابط رہے ۔ لیکن ان نفوس قدسیہ نے کبھی بھی دربار شاہی سے اپنے ذاتی اور نجی فوائد و مقاصد ہر گز حاصل نہ کئے بلکہ بندگانِ خدا کی داد رسی اور مظلوموں اور مجبوروں کی حاجت روائی فرماتے رہے۔ سلطان علائو الدین خلجی نے اپنے عہد حکومت میں دہلی سے باہر آپ کا استقبال کیا اور بصد اعزاز و اکرام آپ کو دہلی لایا اور دو لاکھ ٹکے نذر پیش کئے اور پھر روانگی کے وقت پانچ لاکھ مزید نذر کئے ۔آپ نے دہلی چھوڑنے سے پہلے یہ ساری رقم فقراء اور مساکین میں تقسیم کر دی۔
حضرت شاہ رکن الدین اگرچہ دہلی میں شاہی مہمان ہوتے تھے مگر آپ کا زیادہ وقت حضرت خواجہ خواجگان نظام الدین بد ایونی محبوب الہٰی کی صحبت میں بسر ہوتا تھا۔ دونوں ہستیوں کے درمیان بے مثال محبت اور غیر معمولی احترام باہم تھا۔ قیام دہلی کے دوران ایک مرتبہ شاہ رکن الدین نماز جمعہ ادا کرنے جامع مسجد تشریف لائے۔ حضرت محبوب الٰہی پہلے سے موجود تھے۔ جمعہ کی نماز ہو چکی تو حضرت محبوب الٰہی اپنی جگہ سے اٹھے اور وسیع فاصلہ طے کرکے حضرت رکن الدین کے پاس آئے۔ آپ اس وقت تک نماز سے فارغ نہ ہوئے تھے۔ حضرت محبوب الٰہی آپ کی پیٹھ کے پیچھے بیٹھ گئے۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو دونوں نے اٹھ کر بڑی گرمجوشی سے معانقہ کیا ۔ پھر حضرت شاہ رکن الدین حضرت نظام الدین محبوب الٰہی کا دستِ مبارک پکڑے ہوئے اس جگہ پر آئے جہاں محبوب الٰہی پہلے بیٹھے ہوئے تھے۔ جب دونوں مسجد سے روانہ ہو کر اپنی اپنی سواریوں کے پاس پہنچے تو دونوں ایک دوسرے سے اصرار کرنے لگے کہ پہلے وہ اپنی سواری پر جلوہ فرماہوںآخر کار حضرت محبوب الٰہی کا اصرار غالب رہا اور حضرت قطب الاقطاب پہلے سواری میں جلوہ فرما ہوئے۔
امامت نماز جنازہ
سلطان المشائخ حضرت نظام الدین محبوب ِ الٰہی کی نمازِ جنازہ حضرت شاہ رکن عالم نے پڑھائی اور آپ فرماتے تھے کہ مجھے اس سعادت پر ہمیشہ فخر رہے گا۔ سلطان المشائخ کے محبوب مرید حضرت امیر خسرو کا جنازہ بھی آپ ہی نے پڑھایا تھا۔
خدمت خلق اللہ
گو حضرت شاہ رکن عالم کو محبوب الٰہی سے سلطان قطب الدین خلجی کے عناد رکھنے کا علم تھا پھر بھیبادشاہ کے سامنے آپ برملا محبوب الٰہی کو اس شہر کا سب اچھا آدمی کہتے۔ حضرت شاہ رکن عالم کا معمول تھا کہ جب وہ سلطان قطب الدین کے پاس تشریف لے جاتے تو راستہ میں اپنی سواری تختِ رواں کو ٹھہراتے چلتے تاکہ اہل ضرورت اپنی درخواستیں سلطان کی خدمت میں پیش کرنے کے لیے ان کی سواری میں ڈال دیں۔ بعض ضرورت مندوں کی معروضات زبانی بھی سنتے تھے۔ شاہی محل کے پاس پہنچ کر دو دروازوں تک تخت رواں پر سوار رہتے۔ تیسرے دروازے کے قریب جہاں سلطان ان کی تعظیم و استقبال کے لیے کھڑا نظر آتا وہ اتر جاتے۔ سلطان بڑے ادب و تکریم سے دربار میں لے جاکر بٹھاتا اور خود مودب ودوزانو ہو کر ان کے سامنے بیٹھتا۔ اس کے بعد حضرت شاہ رکن عالم شہر کے لوگوں کی درخواستیں سلطان کے سامنے پیش کرتے وہ ہر ایک درخواست کو بغور پڑھتا اور اس کی پشت پر اسی وقت حکم صادر کر دیتا۔ خیال دنیا و آخرت
آپ وضو فرماتے تو اس کے بعد کی دعا پڑھتے ایک روز وضو سے فارغ ہوئے تو دعا نہیں پڑھی بلکہ صرف الحمد للہ کہا۔ خادم خاص نے ان کے نانا سے جا کر عرض کیا کہ آج حضرت نے صرف الحمد للہ کہا اور کوئی دعا نہیں پڑھی۔ وہ حضرت شیخ رکن الدین کے پاس آئے اور واقعہ دریافت کیا۔ حضرت نے فرمایا آج وضو میں دنیا و آخرت کا خیال دل میں نہیں گزرا تو میں سمجھا کہ آج میرا وصال ہے اسی لئے صرف الحمد للہ کہا ہے۔آپ کی رحلت 7جماد الاولیٰ735ھ میں ہوئی۔ قطب الاقطاب کے وصال کو سات صدیاں گزر گئیں لیکن آپ کے انوار و تجلیات اور فیوض و برکات جاری ہیں اور تا قیامت اسی طرح جاری و ساری رہیں گی۔ مادیت کے ہر دور میں محروم اور دکھی انسانیت امن و عافیت اور طمانیت و سکینت کی تلاش میں ہمیشہ یہاں حاضری دیتی ر ہے گی۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
دو برگزیدہ ہستیوں کی نماز جنازہ کی امامت کا اعزاز
Nov 30, 2022