الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے 8 فروری 2024 کو ملک میں عام انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے تیاریاں جاری ہیں، 30 نومبر کو حلقہ بندیوں کی حتمی فہرست جاری کی جائیگی جسکے بعد دسمبر کے دوسرے ہفتے میں عام انتخابات کا حتمی شیڈول جاری کئے جانے کا اعلان کیا ہے۔ سپریم کورٹ کے حکم پر صدرِ مملکت کی مشاورت کے بعد 8 فروری 2024 کو عام انتخابات کے انعقاد کی تاریخ دی گئی جسکے بعد سے ابتک اس طرح کا انتخابی ماحول نہیں بن سکا جس طرح کی گہما گہمی کا ماحول ماضی میں ہونے والے انتخابات میں دیکھا جاتا رہا ہے تاہم بعض سیاسی جماعتوں کے انتخابی اتحاد دیکھنے میں آرہے ہیں جبکہ ماضی قریب کے اتحادی مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کا مصنوعی رومانس ختم ہوگیا ہے اور دونوں جانب سے ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ ایک ہفتہ قبل تک بلاول بھٹو زرداری ملکی سطح پر بھرپور انتخابی مہم شروع کر رکھی تھی اور جلسوں میں مخالفین کو آڑے ہاتھوں لے رہے تھے کہ بزرگ سیاستدانوں کو گھر بیٹھنے کے بیان اپنے ہی والد آصف علی زرداری کی جانب سے ناتجربہ کاری قرار دیئے جانے کے بعد بلاول اور آصف علی زرداری کے درمیان اختلاف ات جیسی خبروں نے بھی جگہ لے لی۔ تاہم بلاول بھٹو زرداری دورہ یو اے ای کے بعد کراچی واپس پہنچ گئے اور آج 30 نومبر کو پیپلز پارٹی کے یوم تاسیس کے موقع پر کوئٹہ میں منعقدہ جلسے میں شرکت کرینگے۔ دوسری جانب اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نواز شریف کی آیون فیلڈ ریفرنس کیس میں بریت کا فیصلہ آنے کے بعد سیاسی ماحول میں مزید کلئیرٹی آگئی ہے کہ تاحیات نااہلی کا فیصلہ بھی کالعدم ہونے کے بعد میاں محمد نواز شریف کی آئندہ الیکشن میں حصہ لینے کی کی راہ ہموار ہو جائیگی۔ گزشتہ روز میاں نواز شریف کی آیون فیلڈ کیس میں سزا ختم ہونے کی خوشی میں ملک کے دیگر علاقوں کی طرح ملتان میں بھی لیگی کارکنوں کی جانب سے جشن منایا گیا اور اسے حق کی فتح قرار دیا۔ اسوقت مسلم لیگ ن ہی وہ واحد جماعت ہے جسکی جانب سے پنجاب کے بیشتر حلقوں میں امیدواران کی ابتدائی فہرستیں تیار کرلی گئی ہے جبکہ ملتان کے چند حلقوں میں تاحال امیدواران کے درمیان کھینچا تانی اور جوڑ توڑ کا عمل جاری ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے امیدواران اور عہدے داران تاحال سیاسی منظر سے غائب ہیں اور کسی بھی امیدوار کی جانب سے الیکشن لڑنے کا واضح اعلان سامنے نہیں آیا۔ مسلم لیگ ن کی قیادت کی جانب سے پی ٹی آئی کے چند منحرف اراکین کو پارٹی ٹکٹ دیئے جانے پر لیگی امیدواران میں بے چینی پائی جاتی ہے اور انکی جانب سے اپنی قیادت سے یہیی مطالبہ کیا جارہا ہے کہ پیرا شوٹرز کی بجائے دیرینہ لیگی کارکنوں کو ہی انتخابی میدان میں اتارا جائے کیونکہ 17 جولائی 2022 کے ضمنی انتخابات میں بھی عوام نے لوٹوں کو مسترد کردیا تھا اور پی ٹی آئی نے ضمنی الیکشن میں کامیابی حاصل کرلی تھی لہذا اس تجربے سے سبق سیکھنا چاہیے۔ اسوقت ملتان شہر میں پی ٹی آئی کے دو منحرف اراکین قومی اسمبلی ملک احمد حسن ڈیہٹر اور رانا قاسم نون مسلم لیگ ن کے ٹکٹ کے امیدوار ہیں اور انکی مسلم لیگ کی قیادت سے ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ سیاسی پنڈتوں کے مطابق پی ٹی آئی کے امیدواران سامنے آنے پر ہی انتخابی دنگل کی صورتحال واضح ہو پائے گی ۔
انتخابی گہما گہمی ابھی انتخابی شیڈول جاری ہونے تک دکھائی نہیں دے رہی امیدواران کے کاغذات نامزدگی جمع ہونے کے بعد یہ سرگرمیاں یقیناًشروع ہو جائیں گی۔سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے پاکستان پیپلز پارٹی کے 57 ویں یوم تاسیس کے موقع پر کہا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی ایک مشن کا نام ہے جس کی بنیاد شہید ذوالفقار علی بھٹو نے رکھی جس کا مقصد جمہوریت کے استحکام اور عوام کے حقوق کی جدوجہد تھی آج ہمیں جن تین بڑے مسائل کا سامنا ہے وہ دہشت گردی غربت اور مہنگائی کا خاتمہ ہے۔ پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری بانی شہید ذوالفقار علی بھٹو شہید بے نظیر بھٹو کے مشن پر گامزن ہیں آصف علی زرداری نے حقیقی معنوں میں جدوجہد کی یہاں تک کہ اپنے اختیارات پارلیمنٹ کو دے دیئے تاکہ جمہوریت مستحکم ہو پیپلز پارٹی نے چارٹر آف ڈیموکریسی پر بہت کام کیا جو باقی رہ گیا ہے انشاء اللہ اسے نئے منشور میں دیں گے دہشت گردی غربت اور مہنگائی کے خاتمے کے لیے انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے چھوٹے صوبوں کی محرومیوں کے خاتمے کے لیے مزید کام کریں گے۔