الیکشن کا کھیل شروع ہونے والا ہے۔اسٹیڈیم کا جھاڑوپوچا شروع ہوچکا ہے۔ جھاڑو اور پوچے قومی خزانے سے issueکروالئے گئے ہیںمیچ کا دورانیہ چونکہ طویل ہوتا ہے اس لیے ناظرین کی نشستوں پر ہی کھانے پینے کے تمام لواز مات رکھ دیئے گئے ہیں۔ میچ اسی طور طریقے سے کھیلا جائے گا جیساکہ پاکستان کے وجود میں آجانے کے بعد سے کھیلا جارہا ہے۔ کوئی نیا طریقہ اور انداز اس کے لیے اختیار نہیں کیا گیا کیونکہ کہ ناظرین کا ذوق و شوق اس طرح کے میچ دیکھنا پسند کرتا ہے۔ وہ کسی تبدیلی کو پسند نہیں کرتا البتہ ایک تبدیلی لائی گئی ہے اور اس دفعہ کسی مرد کمنٹیٹر کی بجائے ایک خاتون کمنٹیٹر نے اپنی خدمات خود حاضر کی ہیں۔ خدا کرے وہ اپنی حاضری کو ماہرانہ اور ایماندارانہ ثابت کر سکیں ورنہ ہمیں اپنے کھلاڑیوں کاعلم ہے۔ اگر انہیں اس خاتون کمنٹیٹر پر ذرا بھر بھی ناگواری محسوس ہوئی تو اس کے ساتھ بھی وہی حشر کیا جاسکتا ہے جو کھلاڑیوں کے بارے میں کچھ اونچی نیچی یا ناپسندیدہ بات رکھنے والوں کا کیا جا چکا ہے۔
میں کمنٹری باکس سے ایک بے شناخت خاتون بول رہی ہوں آئیے آپ کو الیکشن اسٹیڈیم لے جاتے ہیںاور اکھاڑے میں داخل ہونے والے ہر کھلاڑی کا تعارف کرواتے ہیں۔ ویسے تو ناظرین ان سب کھلاڑیوں کے نام اور کام سے بہت اچھی طرح واقف ہےں لیکن کمنٹری کے لیے جس مواد کی ضرورت ہوتی ہے اسی سے شروع کرتے ہیں۔
ہاں تو ناظرین آپ دیکھ رہے ہوں گے سب سے پہلے میاں شیر خان اپنی مستانہ چال چلتے ہوئے آہستہ آہستہ رِنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اپنے کمزور وِژن کی وجہ سے میں بہت پریشان ہورہی ہوں کیونکہ یہ مجھے شیر نہیں نظر آرہے۔ دراصل ان کے مالکوں نے انہیں اس ک±شتی سے پہلے ایک ترقی یافتہ ملک میں بھیج دیا تھا تا کہ وہاں کی تروتازہ آب و ہوا اور صاف ستھری اعلیٰ غذا کی وجہ سے انہیں طاقت ، توانائی وافر مل جائے۔ بس مجھے صرف یہ ڈر ہے کہ کوئی انہیں استعمال نہ کر لے اب دوسرے کھلاڑی بلی کی چال چلتے ہوئے رِنگ میں داخل ہور ہے ہیں جی ہاں یہ زردار خان ہے ہاتھ میں خواتین کے پرس کی طرح کی کوئی تھیلی پکڑے ہوئے ہیں۔ شاید وہی دال روٹی والی پرہینری غذا ہے جو انہیں ہر جگہ ساتھ رکھنی پڑتی ہے کیونکہ اس میں غذا کے علاوہ ان کی ادویات بھی ہوتی ہیں۔ ان دونوں اشیاءکے لیے وہ کسی پر بھی اعتبار نہیں کرتے کیونکہ دوائیوں کی مالیت ملکی بجٹ کے برابر ہے۔ ±ملک میں ادویات کے قحط کی وجہ سے کوئی (بیمار) اسے چرا بھی سکتا ہے۔ بہرحال ناظرین پلیز ذرا خاموشی اختیار کریں ڈھول کی تھاپ بہت زور دار ہے جھارا پہلوان کسی دھول اڑاتے جنگی گھوڑے کی طرح قدم بڑھا رہا ہے ماتھے پر فضلِ ربی کی پٹی بندھی ہوئی ہے اور طاقتور اور ناقابلِ شکست علامت کے طور پر دونوں بازو ڈنڈے کی طرح اپنے سر سے اوپر بلند کیئے ہوئے ہے۔ناظرین ڈر کے مارے اپنی اپنی نشستوں پر گھٹنوں میں سردے کر بیٹھ گئے ہیں۔ بھاری بھرکم پاؤں زمین کے جس حصے پر رکھتے ہیں دھول کا طوفان اٹھ پڑتا ہے اور سطح زمین کی ہیبت کذائی تبدیل ہوجا تی ہے۔آخری کھلاڑی جس کا تمام تماشائیوں کو شدت سے انتظار تھا وہ چاک و چوبند سورہ آلِ عمران کا ورد کرتے ہوئے رِنگ میں داخل ہورہے ہیں۔ کچھ ناظرین شدت جذبات میں کھڑے ہو کر تالیاں بجا رہے ہیں البتہ کچھ تماشائی خوش گپیوں میں مصروف ہیں۔ یہ آخری کھلاڑی بڑی خود اعتمادی سے کھیل رہا ہے اور سوچ رہا ہے کہ وہ اپنے ملک کو اور اپنے لوگوں کو عمر بھر کے لیے جیت کی خوشی اور سکون دینے میں کامیاب ہو جائے گا۔ ابھی وہ جیت کے بعدا پنے دستانے اتار ہی رہا تھا کہ اس پر پھولوں کی بجائے پتھر آنا شروع ہو گئے اور دوسرے تما م کھلاڑیوں نے اس کی جیت کو بے ایمانی اور دھاندلی کی جیت کہنا شروع کر دیا۔ سارے ڈھول سپاہی جو ا سٹیڈیم کو گھیرے میں لئے کھڑے تھے اپنے ہی بنائے ہوئے حفاظتی بند توڑ کر اندر آ گئے اور بیچارے آخری کھلاڑی کا بلا چھین لیا اوروہ سب کا منہ دیکھتا رہ گیا۔ وہ مایوسی اور بے دلی سے چلتا ہوا پویلین سے باہر آگیا ہے۔ اللہ اللہ خیر سے اللہ۔
کتنا بڑا المیہ ہے کہ الیکشن کا یہ سارا کھیل تماشا پچھلے 76سال سے ایک مقررہ انداز سے چل رہا ہے۔ بے ایمانی اور خود غرضی الیکشن کا لازمی جزو بن چکے ہیں۔ ایک کمزور اور بیمار باپ (بابائے قوم) نے اپنی طاقتور قوتِ ارادی سے ایک انتہائی خوبصورت اور قدرتی وسائل سے لبالب بھرا ملک اپنے بچوں کے حوالے کیا مگر ان نا خلف بچوں نے اس ملک کو طاقت دینے کی بجائے ناتواں اور بیمار کرڈالا جہاں بیمار کو دوائی میسر نہیں کمزور اور م±فلس کو انصاف میسر نہیں اور ناتواں غریب کو طاقت کے لیے روٹی میسر نہیں۔ ساری روٹیاں اور ساری دوائیاں طاقتور با اختیاروں نے اپنے اپنے گھروں میں ڈھیر کر لی ہیں جو ان کی ضروریات سے اتنی زیادہ ہیں کہ گل سڑ رہی ہیں مگر وہ انہیں بانٹنے پر تیار نہیں الیکشن کے حالات میں شدت جذبات نے مجھے کچھ اشعار عطا کیئے ہیں۔
سج گیا بازار پھر ایمانوں کا ایوانوں میں
ہر طرف شور بھائہ تاؤ اور بولی کا
کھوٹے سکے ہیں سارے گردش میں
سچا سودا کہاں ملے گا اب
اٹھائے پھرتے ہیں قرآن بس ایک ووٹ کی خاطر
سلا دیا ہے اوڑھا کر بس اک غلاف اسے
ایک دو اشعار سرائیکی کے سنیں خداکرے سب کو سمجھ آسکیں۔
اے سارے چور ا±چکے ہِن
اے چورہِن ڈاڈھے کاری گر
اے ±ملک دی کشِتی ل±ٹ گھِنسن
ت±ساں کھڑے کنارے تے روسو
نہ چنڑوں ِ اِنہاں کوں امامت لئی
مَتاں©© کر بل کربل کردے پھر