پاکستان کی بہتری چاہتے ہیں تو!!! 

 آئندہ انتخابات ہر صورت شفاف اور غیرجانبدار ہونے چاہئیں تاکہ کوئی بھی جماعت اس کے نتائج پر انگلی نہ اٹھاسکے اور شکست کھانے والا جیتنے والے کو مبارکباد دیکر بھرپور تعاون کی پیشکش کرے ۔تمام سیاسی جماعتوں کو مساوی طور پر الیکشن مہم چلانے اور ووٹر تک اپنا منشور پہنچانے کی نہ صرف آزادی ہو بلکہ حکومت اور الیکشن کمیشن انتخابات کے انتظامات کو اس قدر شفاف بنائے کہ ہر جماعت انتخابات کے متعلق اپنے اطمینان کا اظہار کرے۔ ایسا ہوگا تب ہی ملک سیاسی ومعاشی استحکام حاصل کرسکے گا بصورت دیگر اگر الیکشن شفاف نہ ہوئے تو ملک انتشار کا شکار ہوسکتا ہے جس سے یقینی طور پر معیشت کا بہت نقصان ہوگا جس کا پاکستان متحمل نہیں ہوسکتا۔ اصل جمہوریت کا حسن بھی یہی ہے کہ شکست کو کھلے دل سے تسلیم کرنے کا حوصلہ ہو اور فتح حاصل کرنے والے کو گلے لگاکر مبارکباد دی جائے۔ اگر سیاستدانوں میں اتنا ظرف ہوتا تو تحریک عدم اعتماد آنے سے پہلے پارلیمنٹ میں اپنی مقبولیت کا خاتمہ دیکھ کر خود ہی استعفٰی دے دیتے یا پھر تحریک عدم اعتماد آنے کے بعد آئینی و جمہوری طریقے سے خندہ پیشانی سے اس کا مقابلہ کرتے اور شکست کو کھلے دل سے تسلیم کرکے فتح حاصل کرنے والوں کو مبارکباد دیتے اور اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلاکر ملک کی خاطر مل جل کر کام کرنے کا عزم باندھتے۔ افسوس کے ساتھ لکھنا پڑتا ہے کہ یہاں سیاستدان صرف زبانی طور پر جمہوریت کی بات کرتے ہیں لیکن عملی طور پر وہ جمہوری رویوں سے ناواقف ہیں۔
سیاسی جماعتوں میں بھی بادشاہت کی طرز پر کام ہوتے ہیں اور پارٹی الیکشن برائے نام ہوتے ہیں۔ یہاں کسی سیاسی جماعت میں ایسا فریم ورک قائم نہیں کہ کارکن پہلے یونین کونسل‘ پھر تحصیل و ضلع اور اس کے بعد صوبے و وفاق کی سطح کی سیاست کرنے کا اہل ہو۔ اسی طرح ایک یونین کونسل کے پارٹی عہدیدار کو یہ اختیار نہیں ہونا چاہئے کہ وہ مخالف سیاسی جماعت کی صوبائی و وفاقی سطح کی شخصیت کے خلاف بیان بازی کرسکے کیونکہ اس کا اپنا پارٹی میں دائرہ اختیار اس سطح کا نہیں ہے کہ وہ مخالف جماعت کے اعلٰی سطح کے عہدیدار کے خلاف بیان دے سکے۔ یہاں تو ایک کونسلر سطح کا سیاسی ورکر براہ راست وزیراعظم کے خلاف بیان دیتا ہے لیکن اسے اپنی جماعت کے جنرل سیکریٹری کی جانب سے کوئی شوکاز وغیرہ جاری نہیں کیا جاتا۔ اﷲ بخشے ایئرمارشل اصغر خان صاحب نے اپنی پارٹی میں اس بارے میں سخت قواعد و ضوابط قائم رکھے ہوئے تھے اور مخالف جماعت کے قومی سطح کے لیڈر کے بارے میں کسی بھی صوبائی یا ضلعی سطح کے پارٹی ورکر کو بیان بازی کی قطعی اجازت نہیں تھی۔جمہوری طرز عمل کے بارے میں ہمیں قومی سطح پر تربیت کی اشد ضرورت ہے۔ہر کارکن کم از کم 10سال جماعت میں سیاسی تربیت لے اور اسکے بعد عوامی عہدوں کے لئے کاغذات نامزدگی جمع ہوں تو جمہوری رویئے بہتر ہوں گے۔ میں 44سال سے ایک ہی جماعت میں ہوں اور تب جاکر کہیں جمہوریت کی سوجھ بوجھ ہوئی ہے۔
پی ڈی ایم کو جن حالات میں حکومت ملی اور پھر جس طرز کی سیاست کی گئی تو اس حکومت کے 15ماہ میں ڈالر و مہنگائی جس قدر کنٹرول ہوسکتے تھے‘ کئے گئے لیکن عام آدمی کے لئے مشکلات میں مسلسل اضافہ ہوا۔ جنرل عاصم منیر کے آرمی چیف بننے کے بعد ایپکس کمیٹیاں فعال ہوئیں اور آرمی چیف خود ہر صوبے میں جاکر کمیٹی کی میٹنگ میں نہ صرف شریک ہوتے ہیں بلکہ وہاں ہونے والے فیصلوں پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ نگران حکومتوں کے آنے کے بعد ڈالر کی قیمت کنٹرول ہوئی اور مہنگائی میں نمایاں کمی آنا شروع ہوگئی اس کے علاوہ بھی قومی وصوبائی سطح پر معاملات میں نمایاں بہتری نظر آئی۔ ایپکس کمیٹیوں کے فعال کردار اور وہاں ہونے والے فیصلوں پر من و عن عملدرآمد سے عوام نے سکھ کا سانس لیا اور عام آدمی کو مہنگائی میں کمی آنے سے کچھ اطمینان حاصل ہوا ہے ۔ ایپکس کمیٹیوں کے فعال کردار کے بعد ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری آنا شروع ہوئی ہے اور امید ہے کہ معاملات اسی طرح بہتری کی طرف جائیں گے اور مزید غیر ملکی سرمایہ کاری آنے سے بے روزگاری و مہنگائی میں نمایاں کمی واقع ہوگی۔
میرے خیال میں الیکشن کے بعد ملک کو معاشی طاقت بنانے کے ایجنڈے پر تمام سیاسی قوتیں مل کر قومی حکومت بنائیں جو معاشی ترقی کے حصول کے ون پوائنٹ ایجنڈے پر پانچ سال تک کام کرکے ملک کو معاشی مضبوطی سے ہمکنار کرے۔ ملک ہوگا تو سیاست بھی ہوتی رہے گی۔ سیاستدانوں کی ذاتی ضد و انا ختم ہونی چاہئے اور نئی منتخب ہونے والی پارلیمنٹ سے متفقہ طو رپر کرپشن پر سزائے موت کا قانون منظور کیا جائے۔ اس کے علاوہ موجودہ ناکام ترین نظام جس نے ملک کو اس نہج تک پہنچایا ہے اس کے خاتمے کے لئے بھی قومی اتفاق رائے سے پارلیمنٹ کے ذریعے نئے انتخابی‘ عدالتی و انتظامی نظام اور نئے انتظامی صوبوں کے قیام کا اعلان کیا جائے۔ اگر ملک کو موجودہ نظام کے تحت چلایا جاتا رہا تو عوام کے مسائل میں مزید اضافہ ہوگا۔ پارلیمنٹ فوری انصاف کی فراہمی کے لئے دیوانی مقدمے میں زیادہ سے زیادہ ایک سال اور فوجداری میں 6ماہ میں فیصلہ کرنے کا پابند بنائے اور ہائی کورٹ بھی 3ماہ میں اپیل پر فیصلہ دے تاکہ عام آدمی جو انصاف کے حصول کے لئے کئی دہائیوں تک انتظار کرکے اور اخراجات کرکے دیوالیہ ہوجاتا ہے‘ اسے فوری انصاف مل سکے۔ اس کو ممکن بنانے کے لئے ججوں اور عدالتی عملے کی تعداد بڑھانے کے ساتھ حکومت عدلیہ کو تمام ضروری وسائل فراہم کرے۔ 
موجودہ انتخابی نظام بھی سیاست پر دولت مند کو قابض بنانے کا موجب ہے۔ متناسب نمائندگی کا نظام رائج کیا جائے جس میں کوئی بھی ووٹ ضائع نہیں ہوتا اور ملک بھر میں مقبولیت کی شرح سے پارٹی کو پارلیمنٹ میں نمائندگی ملتی ہے۔ ووٹر کسی شخصیت کے بجائے براہ راست پارٹی کو ووٹ دیتا ہے۔ کئی یورپی ممالک میں کامیاب جمہوری نظام کی وجہ متناسب نمائندگی کے تحت الیکشن ہیں۔ 

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...