فلسطینی عوام سے یکجہتی کا بین الاقوامی دن

جب یہ سطور لکھی جارہی ہیں اس وقت اقوامِ متحدہ کے جھنڈے تلے فلسطینی عوام سے یکجہتی کا بین الاقوامی دن ( International Day of Solidarity with the Palestinian People) منایا جارہا ہے۔ 1978ءسے اب تک یہ دن ہر سال 29 نومبر کو منایا جاتا ہے، اور اس سلسلے میں اقوامِ متحدہ کے امریکی شہر نیویارک میں واقع صدر دفتر کے علاوہ سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا، آسٹریا کے دارالحکومت ویانا اور کینیا کے دارالحکومت نیروبی میں قائم اقوامِ متحدہ کے دفاتر میں تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ یہ دن اقوامِ متحدہ کی قرارداد 181 کی یاد میں منایا جاتا ہے جو 29 نومبر 1947 ءکواختیار کی گئی تھی۔ اس قرارداد کے ذریعے یہ طے کیا گیا تھا کہ برطانیہ کے زیر نگیں فلسطینی علاقے کو دو ریاستوں میں تقسیم کردیا جائے اور ان میں ایک ریاست اس علاقے کے قدیمی اور اصلی باشندوں یعنی فلسطینیوں کو دیدی جائے اور دوسری ریاست یورپ اور دنیا بھر سے اکٹھے کیے جانے والے ان یہودیوں کے لیے قائم کی جائے جو مبینہ طور پر جبر و استبداد کا شکار تھے۔
اس قرارداد کے تحت جو فارمولا طے کیا گیا تھااس کے مطابق فلسطینی سرزمین کے 56.47 فیصد رقبے پر صہیونیوں کو اختیار دیا جانا تھا اور 43.53 فیصد رقبے پر فلسطینیوں کی ریاست قائم ہونی تھی جبکہ یروشلم کو ایک بین الاقوامی شہر کی حیثیت دیے جانے کی بات کی گئی۔ اس سلسلے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ یہودیوں کی کل آبادی اس وقت فلسطین میں مقیم عربوں کے مقابلے میں آدھی بھی نہیں تھی لیکن اس کے باوجود اقوامِ متحدہ کی جانب سے دو ریاستوں کے قیام کے لیے زمین کی تقسیم کا جو فارمولا بنایا گیا اس میں یہودیوں کو واضح طور پر زیادہ حصہ دینے کی بات کی گئی۔ 29 نومبر 1947 ءکو جب اس قرارداد کی منظوری کے لیے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس ہوا تو وہاں موجود ارکان میں سے 33 نے اس کے حق میں ووٹ دیا جن میں امریکا اور سوویت یونین جیسے اہم ترین ارکان بھی شامل تھے۔ جن 13 نے اس قرارداد کو مسترد کیا ان میں پاکستان، بھارت، سعودی عرب، مصر، ترکی (اب ترکیہ)، ایران، افغانستان، عراق، لبنان، شام، یمن، یونان اور کیوبا شامل تھے۔ جنرل اسمبلی کے 10 ارکان نے اس قرارداد کے حق یا مخالفت میں رائے دینے سے گریز کیا تھا جن میں چین اور برطانیہ بھی شامل تھے۔
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں منظور ہونے والی یہ قرارداد اقبال کی وفات کے تقریباً نو برس بعد سامنے آئی لیکن وہ پہلے ہی اس بات سے واقف تھے کہ یورپ اور امریکا مسئلہ فلسطین کا حل فراہم نہیں کرسکتے، لہٰذا انھوں نے 1936ءمیں شائع ہونے والے اپنے مجموعہ کلام ’ضربِ کلیم‘ میں شامل نظم ’فلسطینی عرب سے‘ میں کہا تھا:
تری دوا نہ جنیوا میں ہے نہ لندن میں
فرنگ کی رگِ جاں پنجہ¿ یہود میں ہے
اس شعر میں لندن کا حوالہ تو اس لیے دیا گیا تھا کہ وہ برطانیہ کی قوت کا مرکز تھا اور اس وقت فلسطینی علاقے پہلی جنگِ عظیم کے بعد وجود میں آنے والی تنظیم مجلسِ اقوام (League of Nations) کے ایما پر برطانیہ کے سپرد کردیے گئے تھے کہ وہ ان علاقوں کو ترقی دینے اور یہاں کے باشندوں کے حکومت چلانے کے قابل ہونے تک ان کا انتظام سنبھالے۔ مجلسِ اقوام کا صدر دفتر جنیوا میں تھا اس لیے اس کا ذکر بھی لازم ٹھہرا۔ جب مجلسِ اقوام تشکیل دی گئی تو اس پر اقبال نے ایک قطعے کی صورت میں جو جامع اور بلیغ تبصرہ کیا وہ ’پیامِ مشرق‘ میں ’جمعیت الاقوام‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ کہتے ہیں:
بر فتد تا روشِ رزم دریں بزمِ کہن
درد مندانِ جہان طرحِ نو انداختہ اند
من ازیں بیش ندانم کہ کفن دزدے چند
بہرِ تقسیمِ قبور انجمنے ساختہ اند
(اس دنیا سے جنگ کا چلن ختم کرنے کے لیے دنیا کے درد مندوں نے ایک نئی بنیاد ڈالی ہے؛ میں اس سے زیادہ کچھ نہیں جانتا کہ چند کفن چوروں نے آپس میں قبریں تقسیم کرنے کے لیے ایک انجمن بنا لی ہے۔)
اب ایک بار پھر واپس آئیے اقوامِ متحدہ کی اس قرارداد 181 کی طرف جس کو منظور ہوئے 76 برس مکمل ہوگئے ہیں۔ پون صدی کو محیط اس عرصے کے دوران اس قرارداد پر نہ صرف یہ کہ عمل درآمد نہیں ہوسکا بلکہ تب سے اب تک صہیونی ریاست ظلم و بربریت کی ہر حد کو پار کرچکی ہے۔ پچھلی پون صدی کا تو خیر کیا بتایا جائے 7 اکتوبر سے لے کر 24نومبر کی صبح تک کی گئی غزہ پر اسرائیل کی جانب سے جو اسلحہ اور گولا بارود استعمال کیا گیا اس کے نتیجے میں تقریباً 15 ہزار فلسطینی شہید ہوئے جن میں 10 ہزار بچے اور عورتیں شامل تھیں۔ اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو اور دیگر حکومتی عہدیداروں کے بیانات سنیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ظلم و ستم کا جو سلسلہ پون صدی سے جاری ہے وہ قابلِ قیاس مستقبل میں تھمتا دکھائی نہیں دیتا۔ اسرائیل ایک خاص منصوبے کے تحت فلسطینیوں کی نسل کشی کررہا ہے اور یہ بات کوئی اور نہیں اسرائیلی مو¿رخ اور تاریخ کے استاد پروفیسر ایلان پیپے (Ilan Pappe) کہہ رہے ہیں جس کی تفصیل 2006ءمیں منظر عام پر آنے والی ان کی کتاب The Ethnic Cleansing of Palestine میں پڑھی جاسکتی ہے۔ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ کہ پروفیسر ایلان پیپے خود ایک یہودی ہیں۔
اکتوبر اور نومبر 2023ءکے دوران تقریباً ڈیڑھ ماہ تک جاری رہنے والی بربریت کو تنظیمِ اقوامِ متحدہ اور مسلم ممالک کی نمائندہ تنظیم او آئی سی خاموش تماشائی بن کر دیکھتی رہیں، لہٰذا اس ساری صورتحال سے یہ بات تو پوری طرح واضح ہوگئی کہ فلسطینیوں کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے اس سے متعلق اقوامِ متحدہ جیسے نام نہاد عالمی ادارے کچھ نہیں کرسکتے اور نہ ہی مسلم ممالک کے حکمرانوں میں اتنا دم خم ہے کہ وہ اس سلسلے میں کوئی فیصلہ کن کردار ادا کرسکیں۔ لیکن 7 اکتوبر سے 24نومبر کے دوران بین الاقوامی سطح پر جو شدید عوامی ردعمل سامنے آیا اس نے یہ ثابت کیا کہ دنیا بھر میں عام آدمی جارحیت کی اس شکل کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہ عام آدمی اگر واقعی اپنی طاقت پہچان لیں تو دنیا میں انقلاب برپا ہوسکتا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر ہر ملک یا صرف مسلم ممالک کے باشندے یہ فیصلہ کر لیں کہ وہ بنیادی ضرورت کی ایسی اشیاءکے علاوہ جن کا کوئی متبادل موجود نہیں ایسی کسی بھی کمپنی کی مصنوعات ہرگز استعمال نہیں کریں گے جو ظالم کے ہاتھ مضبوط کرنے میں بالواسطہ یا بلا واسطہ کوئی کردار ادا کرتی ہے تو صرف اس ایک اقدام سے ہی پوری بازی پلٹی جاسکتی ہے!
٭....٭....٭

ای پیپر دی نیشن