لاہور (خبرنگار) لاہور ہائیکورٹ کے دو رکنی بینچ نے لاہور کی سیاسی شخصیت منشاء بم کے جسمانی ریمانڈ کے خلاف دائر درخواست پر کارروائی کرتے ہوئے گرفتار ملزموں کے جسمانی ریمانڈ دینے کے حوالے سے اصول وضع کر دیئے۔ عدالت نے قرار دیا کہ جسمانی ریمانڈ کے لیے ملزم کا کمرہ عدالت میں ہونا ضروری ہے۔ پولیس کسی ملزم کو 24 گھنٹے کے اندر عدالت پیش کیے بغیر اپنے پاس نہیں رکھ سکتی۔ مجسٹریٹ جسمانی ریمانڈ دیتے وقت صرف تفتیشی کی درخواست نہیں بلکہ تمام حقائق کو مدنظر رکھیں اور عدالتی آبزرویشن کو فیصلے کا حصہ بنائیں۔ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس علی ضیاء باجوہ اور جسٹس شہرام سرور پر مشتمل دو رکنی بینچ نے منشا بم کے جسمانی ریمانڈ کے خلاف دائر درخواست پر پندرہ صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ مجسٹریٹ جسمانی ریمانڈ کا فیصلہ کرتے وقت کیس ڈائری اور متعلقہ دستاویزات کا مشاہدہ کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ ملزم کا جرم سے تعلق بنتا ہے اور مزید تفتیش درکار ہے۔ تفتیشی افسر جسمانی ریمانڈ میں توسیع مانگیں تو دیکھا جائے گزشتہ ریمانڈ پر کیا تفتیش ہوئی۔ ملزم کو جسمانی ریمانڈ کی مخالفت کا بھرپور موقع دیا جائے اور بیان ریکارڈ پر لایا جائے۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ملزم کے جسمانی ریمانڈ کے لیے عدالت کا مطئمن ہونا ضروری ہے۔ مجسٹریٹ کے فیصلے سے ملزم کی آزادی جڑی ہوتی ہے۔ ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل کے مطابق دہشتگری عدالت کے جج کو ریمانڈ کے لیے وجوہات بتانا ضروری نہیں۔ ڈپٹی پراسیکیوٹر کا یہ بیان انتہائی غیر مناسب ہے اور قانون کی غلط تشریح ہے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ موجودہ کیس میں ملزم کو 27 سمتبر کو جسمانی ریمانڈ کیلئے دہشتگردی کی عدالت پیش کیا گیا۔ پولیس ڈائری میں ملزم کی چار روز حوالگی سے متعلق کچھ درج نہیں۔ موجودہ کیس میں ملزم کے خلاف ریکارڈ میں کچھ بھی نہیں۔ اے ٹی سی جج نے بغیر حقائق جانے چار مرتبہ جسمانی ریمانڈ میں توسیع کی۔ ملزم منشا بم کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔