غزہ سے نئے اعداد و شمار آ گئے۔ 23 لاکھ کی آبادی میں سے ساڑھے سترہ لاکھ کے گھر تباہ اور وہ خود بے گھر ہو چکے۔ مطلب بہت تھوڑے لوگ ہیں جن کے گھر بدستور سلامت ہیں۔ مارے جانے والوں کی تعداد 17 سے بڑھ کر 20 ہزار ہو گئی جن میں سوا آٹھ ہزار بچے، سوا چار ہزار عورتیں ہیں۔ ساڑھے 36 ہزار زخمی ہیں اور زخمی کا مطلب یہ مت لیجیے کہ گھاو¿ پڑ گیا بلکہ یہ لیجیے کہ کسی کا ہاتھ نہیں رہا تو کسی کی ٹانگ نہیں رہی، کسی کی آنکھیں چلی گئیں تو کوئی ہمیشہ کے لیے مفلوج ہو گیا کہ ریڑھ کی ہڈی ہی ٹوٹ گئی۔ ابھی دو زخمی بچے دیکھے۔ ایک یہ کے دونوں ٹانگیں اور ایک باز کٹ گیا، یعنی صرف ایک بازو بچا۔ ایک سات سال کی بچی جس کے ماں باپ بہن بھائی سب مارے گئے، کوئی بھی نہ بچا اور خود اسے بم کا گولہ کچھ ایسے لگا کہ باقی جسم پر تو معمولی زخم آئے لیکن دونوں آنکھیں چلی گئیں۔ ایک دس سالہ بچہ جو فٹ بال کھیلنے میں مہارت کی وجہ سے سارے غزہ میں مشہور تھا، اس کی پوری ٹانگ کٹ گئی۔ اس نے بڑا ہو کر رونالڈو بننے کا فیصلہ کیا تھا لیکن قسمت کا فیصلہ کچھ اور تھا۔ قسمت سے زیر نظر معاملے میں مراد امریکہ اور اسرائیل کو لیجیے۔
بچوں کی مرگ انبوہ، ’میڈیا‘ کا محبوب موضوع سخن رہا ہے۔ جب بھی ایسا سانحہ ہوا ہے، کالم نگاروں نے مرثیے لکھے ہیں، ٹی وی کے شو پرسنز نے مرثیے پڑھے ہیں، پروگرام ہوئے ہیں، نظمیں لکھی گئی ہیں لیکن غزہ کے سوا آٹھ ہزار بچوں پر ، ابھی تک، ایک بھی کالم کسی اخبار میں آیا نہ کسی ٹی وی پر شو ہوا۔ نہ کسی شاعر نے نظم لکھی نہ نوحہ پڑھا۔ کوئی نغمہ آرکسٹرا کے ساتھ ’پروڈیوس‘ کیا گیا نہ کسی نے سڑکوں پر شمعیں جلائیں، قطار اندر قطار۔
کیا وجہ ہو گی؟ شاید یہ کہ معاملہ دس بیس بچوں کا ہو، سو پچاس کا ہو، یا چلیے ڈیڑھ سو بچوں کا ہو تو کوئی لکھے بھی، کوئی بولے بھی، یہاں تو گنتی آٹھ ہزار کا ہندسہ ٹاپ گئی ہے، کوئی لکھے تو کیا لکھے، کوئی کہے تو کیا کہے۔ یہاں معاملہ لکھنے لکھانے کا نہیں، گنتی گننے کا ہے، سو گن لی، سوا آٹھ ہزار۔ جنگ بندی دو چار دن اور نہ ہوتی تو راو¿نڈ فگر ہو جاتی، پورے دس ہزار۔
منظر مصور تخلیق کیا کرتے ہیں لیکن غزہ میں یہ ذمہ داری کیمرے والے ادا کر رہے ہیں۔ ہر روز سینکڑوں منظر تخلیق ہوتے ہیں۔ ایک منظر کچھ یوں تھاکہ ایک باپ تنہا اپنے گھر کے ملبے پر بچوں کے کھلونے لیے کھڑا ہے اور انھیں الٹ پلٹ کر دیکھ رہا ہے۔ گھر میں وہ واحد زندہ بچ گیا۔ جن کے کھلونے تھے، وہ سب بچے مر گئے، ان کی ماں بھی مر گئی۔ باپ اس لیے بچ گیا کہ وہ بھی مر جاتا تو کھلونے لاوارث ہو جاتے۔ کون انھیں اٹھا کر الٹ پلٹ کرکے دیکھتا۔
جنگ بندی ہو گئی، پھر دو روز کی توسیع بھی ہو گئی۔ شاید اور توسیع بھی ہو جائے لیکن جنگ بندی کے باوجود فلسطینی مر رہے ہیں۔ جابجا کھڑے اسرائیلی ، محض شوقیہ ، لوگوں کی ٹارگٹ کلنگ کر رہے ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ان کی فائرنگ سے مرنے والوں والوں کی تعداد ایک دن میں دس بارہ پندرہ سے نہیں بڑھتی۔ سینکڑوں لوگ ہر روز مارے جائیں، یہ بات تو رکی۔
ارادے واضح ہیں۔ اسرائیل کے وزیراعظم نے ستارہ¿ داو¿دی والے پرچم کے سامنے بیٹھ کر پریس کانفرنس کی ہے اور کہا ہے کہ دنیا بھر میں حماس کی حمایت کرنے والے ہر شخص کو قتل کر دینا چاہیے۔ سوال کیا گیا اگرچہ وہ غیر مسلح سویلین ہی کیوں نہ ہو، جواب ملا، بالکل ، اگرچہ وہ غیر مسلح سویلین ہی کیوں نہ ہو، وہ موت کا لازمی حق دار ہے۔ یہ کہنے پر امریکہ یا یورپ کی کوئی بھی حکومت، کوئی بھی بڑا میڈیا گروپ اسے دہشت گرد قرار نہیں دے گا۔ دہشت گرد تو وہ ہے جو یہ کہہ کر ہٹلر نے 60 لاکھ نہیں، کم یہودی مارے تھے اور دہشت گرد تو وہ ہے جو غزہ میں مارے جانے والوں سے ہمدردی کرے۔
جنگ بندی کے بعد ہسپتالوں سے جو بھی ’فوٹیج‘ آئی ہے، وہ یہی کہتی ہے، مجھ پر یقین مت کرو، ایسا نہیں ہو سکتا، میں جھوٹ بول رہی ہوں۔
لیکن ایسا ہوا ہے۔ جنوبی غزہ کے شہر خان یونس کے الناصر ہسپتال س ے کیا فوٹیج آئی ہے۔ ان گنت نوزائیدہ بچے مردہ پڑے ہیں، ان کے لاشے ڈی کمپوز ہو چکے۔ وجہ کیا بنی؟ سینکڑوں مائیں یہاں داخل تھیں، انھوں نے بچوں کو جنم دیا۔ اسرائیلی فوج آئی اور ماو¿ں کو ہسپتال سے نکل جانے کا حکم دیا۔ وہ بچوں کو اٹھانے لگیں تو روک دیا گیا۔ بچے نہیں لے جا سکتیں، اکیلی جائیں۔ پھر گن پوائنٹ پر ان سب ماو¿ں کو اور ان کے ساتھ آنے عزیزوں کو ھانگ کر نکال دیا گیا پھر ہسپتال کو باہر سے تالے لگا کر پہرے کھڑے کر دیے۔
اب اتنے دنوں کے بعد لوگ اندر آئے تو یہ منظر دیکھا جو اس سے پہلے کسی نے نہیں دیکھا تھا۔
________________
دنیا بھر کے برعکس غزہ کے معاملے پر پاکستان میں بڑی حد تک سناٹا ہے۔ جماعت اسلامی ہے جو مسلسل مظاہرے کر رہی ہے۔ کچھ اور جماعتوں نے ایک دو مظاہرے کر کے فریضے سے سبکدوشی حاصل کر لی۔ سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) پر تنقید ہو رہی ہے کہ اس نے کوئی مظاہرہ کیا نہ ریلی نکالی۔ یہ تنقید اس لیے ناروا ہے کہ مسلم لیگ کو غزہ کی خبر ابھی تک کسی نے دی ہی نہیں۔ اسے پتا چل جاتا کہ غزہ میں کیا ہو رہا ہے تو وہ ضرور مظاہرہ کرتی، چاہے چار افراد ہی کا کرتی لیکن کرتی ضرور۔
پیپلز پارٹی’بھٹو ازم‘ سے دستبردار ہو چکی۔ اب بھٹو صرف بلاول کے نام کا جزو ہے، اس کے سوا وہ کہیں نہیں ہے اور چونکہ فلسطین کا ایشو بھٹو ازم کا حصہ تھا، اس لیے بھٹو گیا تو وہ بھی گیا۔
جماعت اسلامی نے صرف مظاہرے نہیں کیے، بڑی امدادی رسد اور امدادی کارکنوں کی بڑی کھیپ بھی ’الخدمت‘ کے پلیٹ فارم سے بھیجی۔ الخدمت کے سابق سربراہ نعمت اللہ خان مرحوم ہو چکے۔ کہا جاتا ہے کہ ان جیسا کوئی اور نہیں تھا لیکن الخدمت کے نئے سربراہ عبدالشکور خان دوسرے نعمت اللہ خان ثابت ہوئے۔ نعمت اللہ خان اگر بھارت میں ہوتی تو ان کی مورتی پوجا بھی شروع ہوئی ہوتی، نہ جانے کتنے مندر ان کے نام پر کھڑے ہو چکے ہوتے۔ میئر کراچی کے طور پر بھی ان کا نام زندہ رہے گا۔ خدمت خلق کے حوالے سے عبدالستار ایدھی کا نام دنیا کے بڑے آدمیوں میں شامل ہے۔ وہ ’صوفی‘ کی تعریف پر پورا اترتے ہیں۔ مسلمانوں اور عیسائیوں کی تاریخ میں ایسے بہت سے صوفی پیدا ہوئے جریدہ¿ عالم پر جن کا دوام ثبت ہو گیا۔ عصر رواں میں ’صوفی‘ کی نئی انواع وجود میں آئیں جن کی پیش گوئی اقبال یہ کہہ کر کر گئے کہ درویشی بھی عیاری۔۔۔
________________
مریدکے میں ایک مزدور کی دو نو عمر بچیوں کو بااثر رئیس زادوں بیٹوں نے بے آبرو کر دیا۔ ملزموں کی تعداد 5 بتائی جاتی ہے۔ مزدور جمیل عباس نے انصاف نہ ملنے پر خودسوزی کی دھمکی دی ہے۔ خبر میں رئیس زادوں کے لیے بااثر کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جو فالتو ہے۔ رئیس زادے ہمیشہ بااثر ہی ہوا کرتے ہیں۔ دھمکی بے معنی ہے۔ اسے انصاف نہیں ملے گا، وہ خود سوزی کرنا چاہتا ہے تو کر لے۔ ابھی کل ہی ایک بااثر دانشور کا بیٹا بے گناہ بیوی کے قتل سے بری ہوگیا ہے۔
آٹھ ہزار پر کون لکھے!
Nov 30, 2023