مضمون نگار: رانا ضیاء جاوید جوئیہ
آج انسان نے بظاہر ترقی کی اتنی منازل طے کر لی ہیں کہ 100 سال پہلے کا انسان آج کی دنیا دیکھے تو اسے وہ مکمل جادو نگری سمجھے کہیں انسانی اعضاءکی کامیاب پیوند کاری کہیں خلاوں میں سفر کہیں فصلوں کی پیداوار میں سو گنا تک اضافہ اور تو اور مصنوعی انسان تک بنا لئے اور مصنوعی بارشیں برسانے بھی شروع کر لئے لیکن اس ساری نام نہاد ترقی نے بنی نوع انسان کو فطرت سے دور کر دیا ہے اب آپ ان دنوں میں لاہور میں سموگ کی صورتحال کے حوالے سے ہی تجزیہ کریں تو آپکو با آسانی نظر آ جائے گا کہ یہ سموگ بھی خود بنی نوع انسان کی ترقیوں کا نتیجہ ہے اور دوسری طرف غور کریں کہ اس سموگ کو ختم کرنے کے حوالے سے صرف لاہور میں مصنوعی بارش برسانے پر 35 کڑوڑ روپے لگیں گے اور وہ بھی صرف اس صورت میں جب قدرتی بادل لاہور کے قریب موجود ہوں گے تو غور کیجئے کہ اللہ کریم تو ریگستانوں میں بھی نخلستانوں میں بھی اور کوہستانوں میں بھی بالکل مفت بارش برسا دیتے ہیں قارئین گرامی ہم انسان اللہ کریم کی تخلیق ہیں اور اللہ کریم نے ہماری تخلیق کے ساتھ ہی فطری طور پر ہماری ضروریات کی تمام چیزیں بھی عطا فرما دیں مثال کے طور پہ فضاوں کو صاف ستھرا رکھنے اور بادلوں کو قدرتی طور پہ پیدا کرنے کے لئے اللہ پاک نے وسیع رقبے پر جنگلات پیدا فرمائے لیکن ہماری آج کی ترقیوں نے ہم سے درخت کٹوا کٹوا کر سارا فطری توازن درہم برہم کرنے میں کوئی کسر نہی چھوڑی اور آج ہم نہ صرف آلودہ فضاوں کی وجہ سے قسم قسم کی بیماریوں کا شکار ہیں بلکہ بارش برسانے کے لئے بھی کڑوڑوں خرچ کرنے پر مجبور جبکہ درختوں کے جنگل فطری طور پر فضاوں سے نہ صرف کاربن جذب کرتے ہیں بلکہ ہمیں آکسیجن بھی وافر مقدار میں بالکل مفت فراہم کرتے ہیں آکسیجن کی قدر و قیمت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ جب کسی جان بلب مریض کو وینٹی لیٹر پہ رکھ کر ایک دن کے لئے مصنوعی آکسیجن مہیا کرنا پڑے تو اس ایک دن کی ایک مریض کے لئے آکسیجن پر لاکھوں روپے خرچ ہو جاتے ہیں جبکہ صرف ایک درخت ہمیشہ کے لئے 36 ننھے بچوں کو بالکل مفت آکسیجن فراہم کر سکتا ہے اور دو درخت پورے خاندان کی آکسیجن کی ضروریات پورا کر سکتے ہیں قارئین آج ہم اپنی ترقی کے ذریعے مصنوعی ٹھنڈک حاصل کرنے کے لئے پہلے تو ایئر کنڈیشنر خریدنے کے لئے لاکھوں روپے خرچ کرتے ہیں پھر اس کے بجلی بلوں کی مد میں مسلسل لاکھوں روپے خرچ کرتے رہتے ہیں اور اتنے خرچے کے بعد تھوڑی سی مصنوعی ٹھنڈک اور ساتھ جوڑوں کے دردوں سمیت ہزاروں بیماریاں مفت میں خریدتے ہیں جبکہ صرف دس درخت ایک ٹن ائر کنڈیشنر کے برابر ٹھنڈک اور بہترین صحت بالکل مفت دے سکتے ہیں قارئین گرامی یہی درخت فطرت کی عطا کے طور پر ماحول کو متوازن بھی رکھتے ہیں اور انسانی صحت پر بہترین اثرات بھی مرتب کرتے ہیں اور نہ صرف یہ فضاوں اور ماحول کو معطر کرتے ہیں بلکہ انسانی ذہن پر گہرے مثبت اثرات مرتب کر کے اسے ذہنی ' جسمانی اور دلی مسرت بھی مہیا کرتے ہیں جس سے انسان کے اعصاب پر سکون ہو جاتے ہیں اور انسانی طبیعت سے چڑچڑا پن ختم ہو جاتا ہے جبکہ درختوں کی کٹائی اور فطرت سے دوری انسان کو صرف اور صرف ڈپریشن کا مریض ہی بناتی ہے قارئین گرامی آج ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف پاکستان میں شوگر کے مریض ساڑھے تین کڑوڑ سے زیادہ ہیں اور میں پورے یقین سے یہ بات کہتا ہوں کہ یہ سب مریض صرف اور صرف فطرت سے دوری کے سبب اس مرض کا آسان شکار ہوئے اس بات کی تصدیق امریکہ کے اس ہسپتال سے ہوتی ہے جو صرف پندرہ دن مریضوں کو اپنے کمپلیکس میں رکھ کر صرف آرگینک فوڈ پہ رکھ کر شوگر کو مکمل ختم کر دیتا ہے یعنی شوگر کے مریض اگر صرف 15 دن اپنے جسم کو زہر آلود خوراک سے بچا لیں تو انکا پنکریاز بہترین کام شروع کر دیتا ہے اسی طرع فالج اور دل کے مسائل کے حوالے سے باقاعدہ ایک ریسرچ ہو گئی ہے ابھی کہ درختوں اور سبزے سے لطف اٹھانے والے لوگوں میں اس کی شرع بہت کم ہے اسی طرع بیماریوں کے خلاف ہمارا قدرتی دفاعی نظام تباہ ہو چکا ہے نام نہاد ترقی کی وجہ سے جبکہ ہم اگر فطرت کے قریب چلے جائیں تو ہماری قدرتی دفاعی نظام ہمارے لئے کافی سے زیادہ ہو گا اس موضوع پر پورا تھیسز لکھا جا سکتا ہے لیکن نوائے وقت میں صرف ایک کالم کے طور پہ اس سے زیادہ شاید مناسب نہ ہو اس لئے میں پورے دعوی سے یہ کہتا ہوں کہ آج بنی نوع انسان کو درپیش آپ کوئی بڑے سے بڑا مسئلہ دیکھ لیں اس کے پیچھے آپکو انسان کی فطرت سے دوری ایک بڑے فیکٹر کے طور پر ضرور ںنظر آئے گی اور اسی لئے میں ہمارے آج کے سب مسائل کو خود ساختہ مسائل کہتا ہوں اور آپ سب کو دعوت دیتا ہوں کہ آئین پھر سے فطرت کی طرف لوٹ چلیں اور دوبارہ سے ٹینشن فری زندگی کے مزے لیں