مروہ خان نیازی
"ریس میں دوڑنے والے گھوڑے کو یہ نہیں پتہ ہوتا کہ جیت کِسے کہتے ہیں۔ وہ دوڑتا ہے تو اپنے مالک کے دی?ے ہوئے ضرب سے۔ سو اگر زندگی میں کبھی تکلیف پاو¿ تو جان لینا تمھارا مالک تمہیں جیتانا چاہتا ہے"-
اللہ واکبر
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :"جب اللہ تعالیٰ تم میں سے کسی پر بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اسے مصیبت میں مبتلا کر دیتا ہے"۔(بخاری)
تکلیف میں صبر و تحمل اور برداشت کرنے سے اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو خیر کی طرف گامزن کردیتا ہے جو کہ صرف اس کے لیے سراپائے بھلائی ہوتی ہے۔
جب میں نے پہلی بار یہ جملہ "Beauty in the broken" پڑھا، تو یہ میرے دل کو ایک منفرد انداز میں چھو گیا۔ انبیائ کرام کی زندگیوں اور دیگر لوگوں کے حالات جاننے کے بعد، میں اس جملے کی خوبصورتی کو بہتر طور پر سمجھ سکی۔ دل ایک جسمانی عضو ہے، جو علامتی طور پر کسی چیز کا مرکز یا اندرونی حصہ سمجھا جاتا ہے، یا دنیاوی زندگی میں ہماری ہمت اور جذبات کا مظہر ہے۔
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
"بے شک جسم میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے، جب وہ درست ہو تو پورا جسم درست ہوتا ہے اور جب وہ خراب ہو تو پورا جسم خراب ہوتا ہے۔ بے شک وہ دل ہے۔"
لیکن جب یہ دل ٹوٹ جاتا ہے، تو یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب سحر شروع ہوتا ہے۔
ایک مشہور قول قدیم صحیفے میں درج ہے، اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے:
موسیٰ علیہ السلام نے پوچھا: اے میرے رب! میں تجھے کہاں تلاش کروں؟
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "مجھے ٹوٹے دلوں کے قریب تلاش کرو۔" سبحان اللہ۔
آئیے ٹوٹنے کا مطلب سمجھتے ہیں۔ یہ وہ حالت ہے جب ایک انسان کسی خاص حالات کی وجہ سے جذباتی طور پر اپنی کم ترین سطح پر ہوتا ہے۔ یہ ٹوٹ پھوٹ خوبصورتی میں بدل جاتی ہے جب بندہ اس لمحے اپنے رب کو پکارنا شروع کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ براہ راست اس کی حالت میں مداخلت کرتے ہیں کیونکہ وہ الجبار ہیں، اور اسکا لفظی معنی" جوڑنے والا" بھی ہے۔ وہ اپنے بندے کو مصیبت سے نکال کر ایسی بہتری عطا کرتا ہے جو اس کی زندگی بھر کے لیے فائدہ مند ثابت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نہ صرف اس کی روح کو خوبصورت بنا دیتے ہے بلکہ اس کی زندگی کو بھی سنوار دیتے ہیں۔ بندے کا اللہ پر اعتماد بڑھ جاتا ہے اور تنگی و سختی سے وہ مزید عاجز اور نرم دل ہو جاتا ہے۔
اب ہم ذکر کرتے ہیں وہ مراحل جن میں مختلف انبیائ کرام کو آزمائشوں سے گزر کر اپنی نبوت اور ایمان کو مزید تقویت ملی:
حضرت آدم علیہ السلام نے وہ وقت دیکھا جب انہوں نے ممنوعہ پھل کھا کر گناہ کیا، انہوں نے توبہ کی جو قبول ہوئی، اور وہ دوبارہ کبھی زندگی میں شیطان کے جال میں نہ پھنسے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام اس آزمائش سے گزرے جب وہ اتنے بیمار ہو گئے کہ لوگ انہیں تخت پر ایک مردہ جسم سمجھنے لگے، انہوں نے اپنے رب سے دعا کی اور اللہ نے انہیں دنیا کی سب سے عظیم بادشاہی عطا فرمائی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یہ وقت دیکھنا پڑا جب انہیں فرعون کے خوف سے اپنا شہر چھوڑنا پڑا اور وہ بے سہارا ہو گئے۔ انہوں نے دعا کی: "اے میرے رب! میں ان چیزوں کا محتاج ہوں جو تو مجھے عطا کرے۔" پھر انہیں خاندان، گھر، اور رزق عطا کیا گیا۔ جہاں سے ان کی نئی زندگی کا آغاز شروع ہوا۔
حضرت یونس علیہ السلام کو دکھ محسوس ہوا کہ ان کی بارہا کوشش سے ان کی قوم ہدایت یافتہ نہ ہوئی جب انہوں نے اللہ کی اجازت کے بغیر اپنی قوم کو چھوڑ دیا اور مچھلی کے پیٹ میں جا پھنسے۔ انہوں نے توبہ کی اور اپنی قوم کی طرف واپس لوٹے، جہاں ان کے تمام پیروکار نیک ہو گئے۔ تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی قوم کے ہر ایک فرد نے اجتماعی طور پر توبہ کی ہو۔
حضرت ایوب علیہ السلام نے اپنی صحت، دولت، اور اولاد سمیت تمام نعمتیں کھو دیں۔ انہوں نے دعا کی: "بے شک، مجھے مصیبت نے چھو لیا ہے اور تو سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔" اللہ نے انہیں شفا دی اور تمام نعمتیں ایک ایک کر کے لٹا دینں۔
ہمارے محبوب نبی محمد ? کو طائف میں پتھر مارے گئے اور سب نے ان کی نبوت کو مسترد کر دیا، تو وہ بیٹھ کر دعا کرنے لگے۔ اسی رات جنوں کا ایک گروہ ان کے پاس سے گزرا، جنہوں نے قرآن سنا اور اسلام قبول کیا۔ اسی واقعے کے فورا بعد حضرت خدیج? الکبری رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت ابو طالب کا انتقال ہو گیا۔اس سال کو "عام الحزن" (غم کا سال) کہا جاتا ہے، اور پھر اللہ نے انہیں معراج کا تحفہ دیا۔ اور اپنی ملاقات کا شرف عطا کیا جس کی مثال آج تک اس دنیا میں نہیں ملتی اور نہ قیامت تک کبھی ملے۔ سبحان اللہ
خوبصورتی ہر روح کو خوشی دیتی ہے! اللہ اپنے بندے کو اس کی سب سے کمزور حالت سے اٹھاتے ہیں، سنبھالتے ہیں اور پھر جنت میں اس کا مقام بلند کرتے ہیں، اور اس کی زندگی کو دکھ درد کے ذریعے بہتری عطا کرتے ہیں۔ لہٰذا، اگر کسی پر مصیبت نازل ہو، تو اسے دل سے اللہ کو پکارنا چاہیے تاکہ اس ذات کی حفاظت طلب کی جا سکے جس کے قبضے میں ہماری جان ہے۔ عمومی مشاہدہ ہے کہ مصیبت سے نکلنے کے بعد لوگ زیادہ رحمدل، اللہ کے دوست، مددگار، سخی، اور شکر گزار بن جاتے ہیں۔ سبحان اللہ۔
ابن قیم نے کہا:
"اللہ کے کمالات اور فضل میں سے یہ بھی ہے کہ وہ اپنے بندے کو مرمت کی مٹھاس سے پہلے ٹوٹنے کی کڑواہٹ کا مزہ چکھاتے ہیں۔ وہ اپنے مومن بندے کو صرف اسی لیے توڑتا ہے تاکہ اسے جوڑے۔ وہ اسے صرف اسی وقت محروم کرتا ہے جب وہ اسے عطا کرنے والا ہو، اور صرف آزمائش میں ڈالتا ہے تاکہ اسے شفا دے سکے۔"
لہٰذا ہمیں اپنے ایمان کو اتنا مضبوط بنانا چاہیے کہ ہم اللہ کی محبت کا یہ ذائقہ چکھ سکیں:
"اے اللہ! میں کبھی بھی دل کے ٹوٹنے کو نہیں پہچانا جب تک کہ میں نے تیری نافرمانی نہیں کی اور خوشی کو نہیں پہچانا جب تک کہ میں نے تیری فرمانبرداری نہیں کی"- اللہ اکبر
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر یہ دعا فرمای: کرتے تھے:
" اے دلوں کو پھیرنے والے میرے دل کو اپنے دین میں پختہ کر دے"-
ابن قیم نے فرمایا:
دلوں کی زندگی کی کنجی ان میں ہے,
قرآن پاک پہ غور کرنا، اپنے اللہ سبحانہ و تعالی کے اگے چھپکے سے عاجزی انکسار ہونا، گناہوں کو ترک کر دینا۔
بات صرف اتنی ہے کہ ہمیں اس بات کو سمجھنا پڑے گا جیسا کہ مولانا رومی نے فرمایا زخم وہ جگہ ہے جہاں سے روشنی آپ میں داخل ہوتی ہے۔
زندگی میں زخم کھانے اور ان کو روشنی سے بھرنے کی واحد شرط صرف یہی ہے کہ اس درد کی حالت میں صرف اور صرف اللہ سبحانہ و تعالی کو ہی پکارا جائے۔ اور پھر وہ نورِ الہی اس پکار کو روشنی کے ذریعے اس شخص کو ہدایت بخش دیتا ہے تو اس سے زیادہ خوش قسمتی اور کس بات کی ہو سکتی ہے۔ جو تکلیف و درد آپ کو اپنے رب تعالی کی قربت کا باعث بن گئی وہی رحمتِ خداوندی ہے۔ سبحان اللہ