میں نہ مانوں! 

Nov 30, 2024

خالدہ نازش

خالدہ نازش 
میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا بھول جاتی مگر ڈائجسٹ رکھنا نہیں بھولتی تھی - سکول بیگ کو بستے کہتے تھے جو عام طور پر کپڑے کا بنا ہوتا تھا اور آج کے سکول بیگ کی طرح نہیں ہوتا تھا جس کے بوجھ تلے بچے دبے ہوتے ہیں - بلکہ چند لازمی کتابوں ، ایک دو کاپیوں ، ایک پن اور ایک سیاہی کی دوات پر مشتمل ہوتا تھا جو پن میں بھری جاتی تھی - سیاہی کی دوات بھی ہر ایک کے لیے سکول لے جانا ضروری نہیں ہوتا تھا اگر کسی ایک کے پاس ہوتی تو سب کا کام چل جاتا تھا - سیاہی بستے میں بہہ جانے سے کتابوں کا ستیا ناس ہو جاتا تھا ۔ سب لڑکیاں اس لیے بھی بستے میں رکھنے سے ڈرتی تھیں ۔ میری دوست کے بستے میں تو کبھی بھی نہیں ہوتی تھی کیونکہ اسے سیاہی بہہ جانے کی صورت میں کتابوں سے بھی زیادہ ڈائجسٹ کے خراب ہونے کا اندیشہ رہتا تھا ۔ جونہی بریک ہوتی ، کوئی پیریڈ فری ہوتا یا ٹیچر غیر حاضر ہوتیں فوراً ڈائجسٹ نکال کر پڑھنا شروع کر دیتی ۔ اس کی توجہ پڑھائی کی طرف بالکل نہیں تھی ۔ ڈائجسٹ کہانیاں پڑھ کر سب کلاس فیلوز کو سنانا بھی اس کی عادت تھی ۔ یوں اس نے آہستہ آہستہ ڈائجسٹ پڑھنے کا شوق سب کلاس فیلوز میں بھی منتقل کر دیا تھا اور سب نے ڈائجسٹ پڑھنا شروع کر دی تھی ۔ وہ لڑکیاں جو پڑھائی میں اچھی تھیں ان کی توجہ بھی پڑھائی میں کم ہو گئی تھی جس کو کلاس ٹیچر نے بھی نوٹس کر لیا تھا ، اور جب ٹیچر نے وجہ معلوم کی تو پتا چلا کہ سب لڑکیاں اپنا زیادہ وقت ڈائجسٹ پڑھنے میں گزارتی ہیں ۔ ٹیچر کے کہنے پر سب کے بستوں کی تلاشی لی گئی اور ڈائجسٹ نکال لی گئیں ۔ ٹیچر نے ایک لڑکی کو نگرانی کے لیے مقرر کر دیا کہ وہ جسے ڈائجسٹ پڑھتے دیکھے مجھے شکایت کرے اس کو کڑی سزا دی جائے گی ۔ خیر ، ہم نے استاد کا احترام کرتے ہوئے اور کڑی سزا جس کی نوعیت کا تو اندازہ نہیں تھا مگر ڈر سے ہی ڈائجسٹ سکول لے جانا چھوڑ دیا لیکن پڑھنے کی عادت نہیں چھوڑی تھی ۔ ڈائجسٹ کہانیاں بھی ٹی وی ڈراموں کی طرح قسط وار ہوتی ہیں جن کو اگر پڑھنا شروع کر دیں تو دلچسپی بڑھتی رہتی ہے اور اگلی قسط کا بے چینی سے انتظار رہتا ہے ۔ فلموں اور ڈراموں میں جس طرح ایک ہیرو یا ایک ایسا کردار ضرور ہوتا ہے جو فلم یا ڈرامے کا محور ہوتا ہے اور پوری فلم اور ڈرامہ آخر تک اسی کردار کے گرد گھومتا رہتا ہے ۔ دیکھنے والوں کی ساری ہمدردیاں اسی کردار کے ساتھ ہوتی ہیں ۔ سب اسی کو جیتتا دیکھنا چاہ رہے ہوتے ہیں اور آخر میں جیت اسی کردار کی ہوتی ہے ۔ ڈائجسٹ کہانی بھی ایسی ہی ہوتی ہے - ہر کہانی میں چاہے وہ ڈائجسٹ کہانی ہو ، اصل زندگی کی کہانی ہو ، کسی گھر کی یا کسی ملک کی کہانی ہو ، ہر کہانی میں ایک ایسا کردار ضرور ہوتا ہے جو کہانی کا محور ہوتا ہے ۔ مجھے دنیا کے ممالک کی تاریخ ان کی ترقی و تنزلی کی داستانیں پڑھنے کا شوق ہے ۔ ہر ملک ترقی کی دلچسپ داستان رکھتا ہے ۔ مجھے جس ملک کی ترقی نے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے وہ جاپان ہے ۔ دوسری جنگ عظیم میں جب امریکہ نے جاپان کے دو شہروں ، ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرایا جس کی ہولناک داستاں بتاتی ہے کہ اس ایٹمی حملے نے تقریباً تین لاکھ لوگوں کی جان لے لی تھی چھ اور نو اگست 1945ءکا دن سیاہ رات کا منظر پیش کر رہا تھا - لوگوں کے جسموں سے گوشت پگل کر گر رہا تھا - کوئلے کی طرح سیاہ جلے ہوئے انسانی ڈھانچے ہر طرف بکھرے ہوئے تھے - اس ایٹم بم کی تابکاری کے اثرات آج بھی ان دو شہروں میں پیدا ہونے والے بچوں میں کسی نہ کسی طرح کے پیدائشی نقص کی صورت میں اور بنجر زمین کی صورت میں موجود ہیں - دوسری جنگ عظیم میں ناکامی کے بعد ماتم میں وقت ضائع کرنے کی بجائے جاپانی قوم نے جدوجہد کے ذریعے جنگ کی ناکامی کو تعلیم و صنعت کے میدان میں کامیابی میں بدل دیا - دوسری جنگ عظیم تک جن مصنوعات پر میڈ ان جاپان لکھا ہوتا تھا انہیں سستا اور ناقابلِ اعتماد سمجھا جاتا تھا مگر جاپانی عوام اور حکمرانوں نے مل کر اپنے ملک کو جو ایٹمی دھماکوں سے دہائیوں پیچھے چلا جاتا ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کا بیڑہ اٹھایا اور میڈ ان جاپان کے مطلب کو اعلیٰ کوالٹی ، پائیداری اور سب سے بہترین میں بدل دیا ، یہاں تک کہ امریکہ اور یورپی ممالک کو جاپان نے اپنی ترقی سے خوف زدہ کر دیا - جاپان کو ابھرتے سورج کی سر زمین کہا جاتا ہے ، اس لیے کہ دن کا آغاز سب سے پہلے جاپان سے ہوتا ہے اور صعنتی ترقی کے میدان میں بھی جاپان کو ابھرتے سورج کی حیثیت حاصل ہے - جاپان ایک صعنتی ملک ہے جس کی معیشت کا انحصار برآمدات پر ہے - جاپانی انتہائی محنتی ، وقت کی قدر دان بلکہ ایک منٹ اور سیکنڈ کی بھی قیمت جاننے والی ، قانون کا احترام کرنے اور دوسروں سے قانون کی پاسداری کرانے والی ، انتہائی صفائی پسند ، نوکروں کی بجائے تمام کام خود والی ، دنیا میں سب سے زیادہ اوسط عمر رکھنے والی ، اپنے بچوں کی بہترین اخلاقی تربیت کرنے والی اور بےشمار صفات کی حامل قوم ہے ، جس کے متعلق اگر لکھنے لگیں تو کئی کالم لکھے جا سکتے ہیں ، مگر مجھے اپنے ملک پاکستان کی ترقی پر بھی بات کرنی ہے - لہذا جاپان کی ترقی کو یہیں روک دیتے ہیں اور آتے ہیں وطن عزیز کی 77 سالہ ترقی کی کہانی کی طرف - جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ ہر فلم ، ڈرامے اور کہانی میں ایک ہیرو ہوتا ہے ، اور ہیرو ہمیشہ درست سمت کھڑا ہوتا ہے - ہیرو کے مقابلے میں ایک ویلن بھی ہوتا ہے جو غلط سمت کھڑا ہوتا ہے ، اس کا کام برائی کا ساتھ دینا اور ہیرو کا راستہ روکنا ہوتا ہے - پاکستان کی 77 سالہ کہانی میں قائد اعظم ہی پہلے لیڈر اور ہیرو گزرے ہیں باقی اس ملک کو صرف ویلن ہی ملے ہیں جو ہمیشہ غلط سمت کھڑے رہے - ان 77سالوں میں پاکستانی قوم نے ڈکٹیٹرشپ بھی دیکھ لی اور سویلین حکومتیں بھی دیکھ لیں ، اگر نہیں دیکھی تو خوشحالی - اگر میں اپنی بات کروں تو میں نے اس ملک میں دو ہی سیاسی جماعتوں بلکہ دو خاندانوں ، نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکومت بدل بدل کر آتے جاتے دیکھی ہے ، ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا مگر پاکستانی ان سیاست دانوں کے جھوٹے وعدوں میں آ کر بار بار انہیں ہی آزماتے رہے اور ڈسے جاتے رہے کیونکہ پاکستان کی سادہ عوام انہیں کو اپنا مسیحا سمجھ بیٹھی تھی - عوام کے پاس کوئی تیسرا آپشن نہیں تھا چنانچہ یہی دو خاندان عوام کو دودھ اور شہد کی نہریں بہا دینے کی جھوٹی تسلیاں دے کر ووٹ لیتے رہے ، مگر جب پاکستانی عوام میں تیزی سے بدلتی دنیا اور اس کی ترقی کو دیکھ کر اور پاکستان کا موازنہ دیگر ملکوں سے کر کے پاکستان کی پسماندگی کی وجہ جاننے کا شعور پیدا ہونے لگا ، اور بریانی کی پلیٹ پر بکنے والی عوام کو سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی صورت میں تیسرا آپشن بھی مل گیا تو عوام کی اکثریت بھٹو اور نواز شریف دو خاندانوں کی سیاست کو رکے ہوئے پانی کی طرح سمجھنے لگی پانی رکا رہے تو بدبودار ہو جاتا ہے - بانی تحریک انصاف عمران خان نے قوم کو ایک نظریہ دیا تو پاکستانی قوم کی اکثریت عمران خان کو پاکستان کے سیاسی منظرنامے میں ایک ہیرو اور لیڈر کے طور پر دیکھنے لگی - مہنگائی ، غربت بدحالی ، گیس ، بجلی پیٹرول کی بھاری قیمتوں کے بوجھ تلے دبی عوام عمران خان کو نجات ہندہ سمجھنے لگی - عمران خان کی بڑھتی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے دونوں سیاسی جماعتیں تحریک انصاف کو اپنی سیاست کے لئے خطرہ سمجھنے لگیں - ایک دوسرے کے خلاف بیانیہ بنا کر ہمیشہ ووٹ لینے والی اور ایک دوسرے کا پیٹ پھاڑ کر کرپشن کا پیسہ نکلوانے کے دعوے کرنے والی یہ دونوں سیاسی جماعتیں آپس میں مل گئیں اور ان کے مفادات مشترک ہو گئے - 8 فروری 2024ئ کے الیکشن میں اگرچہ پاکستان تحریک انصاف نے ناصرف مرکز میں بلکہ پنجاب ، سندھ بلوچستان میں دو تہائی اکثریت حاصل کی اور پحتون خواہ میں تین چوتھائی اکثریت حاصل کی مگر تحریک انصاف کو حکومت نہیں بنانے دی گئی - فارم 47 کے ذریعے انہیں دو جماعتوں کو ملا کر حکومت بنا دی گئی - 
نون لیگ کے اپنے ایم این اے جاوید لطیف کا کہنا ہے کہ ہماری جماعت مرکز میں سترہ سے بیس نشستیں حاصل کر سکی ہے زبردستی ہماری حکومت بنائی گئی ہے یہی حال اس الیکشن میں پیپلز پارٹی کا بھی تھا - لہذا تحریک انصاف کو عوام کا دیا ہوا مینڈیٹ ان دو جماعتوں میں بھانٹ کر ان کی حکومت بنا دی گئی- پاکستان کی موجودہ صورت حال کی بنیاد ایسے ہی اقدامات ہیں جو تحریک انصاف کے خلاف کیے گئے - اب تحریک انصاف کی سپوٹر عوام اپنا مینڈیٹ واپس لینے اور عمران خان کو جیل سے رہا کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے .
 عمران خان جیل میں ہونے کے باوجود پاکستانی سیاست کا محور بنا ہوا ہے ملک کا سارا سیاسی نظام جس کے گرد گھوم رہا ہے - ترقی تو ہر میدان میں ہم نے بہت کر لی ہے بلکہ کچھ کاموں میں تو ہماری ترقی کا گراف اس قدر تیزی سے اوپر جا رہا ہے کہ جاپان کی ترقی بھی ہم سے شرمانے لگی ہے اور اگر یہ رفتار ایسے ہی جاری رہی تو ہو سکتا ہے ہم بہت جلد ورلڈ ریکارڈ قائم کر لیں - کچھ ترقی کے کام قابلِ ذکر ہیں مثلاً ہم نے کرپشن میں بہت ترقی کی ہے ، ہم نے ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف سے مہنگی شرائط پر قرضہ لینے میں ترقی کی ہے ، ہم نے آئی پی پیز جیسے مہنگے بجلی کے منصوبے لگانے اور عوام کی زندگی میں خوشحالی لانے کی بجائے مشکلات میں اضافہ کرنے میں ترقی کی ہے ، ہم نے پاکستان کے قیمتی اثاثوں کو گروی رکھنے میں ترقی کی ہے ، ہم نے دشمن کی بجائے اپنے ہی لوگوں کو گولیاں مارنے میں ترقی کی ہے ، ہم نے دنیا بھر میں پاکستان کا غلط امیج پیش کرنے میں ترقی کی ہے - اگر ہم نے اس ترقی کو روکنا ہے تو پھر ہمیں اس ملک کے ساتھ مخلص ہونا پڑے گا - اندر کی لڑائی اور مارا ماری کو چھوڑ کر انصاف کے ساتھ جمہوری اصولوں پر عمل کرنا ہوگا ، عوام کی رائے کو مقدم رکھنا ہو گا ، ملک میں قانون کی حکمرانی قائم کرنا ہو گی ، ہر ادارے کو اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کرنا ہو گا ، عدلیہ کو آزاد کرنا ہو گا ، 77 سالہ ملک کے بوسیدہ اور زنگ آلودہ نظام کو تیزاب سے غسل دینا ہو گا - وگرنہ ہماری داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں!!!

مزیدخبریں