انسان اپنی سوچ اور افکارو نظریات کے گرد گھومتا ہے۔ یہ وہ کچھ ہی کرتا ہے جو اس کا نظریہ اسے کرنے کو کہتا ہے۔ اسلام نے ہمیں اچھے اخلاق کو اپنانے کی ترغیب دی ہے۔ جب انسان کی اخلاقی تربیت اچھی اور مکمل طور پر ہو جاتی ہے تو وہ کبھی بھی معاشرے میں فتنہ فساد کا سبب نہیں بنتا۔اور ہمیشہ معاشرے کی بہتری کے لیے کوشش کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورة الحجرات میں کچھ احکامات نازل فرمائے جن پر عمل کرکے ہم معاشرے کو امن کا گہوارہ بنا سکتے ہیں۔
معاشرے میں بگاڑ کی ایک وجہ آپس کے لڑائی جھگڑے ہیں۔ اگر دو گروہوں میں لڑائی ہو جائے تو اسے دوسروں کا معاملہ سمجھ کر الگ ہو کر بیٹھ جانا یا پھر اس لڑائی کو مزید بڑھانے کا سبب بننا عقل مندی نہیں۔بلکہ دانشمندی یہ ہے کہ دونوں فریقین کی بات سن کر ان دونوں کے درمیان صلح کروانے کی ہر ممکن کوشش کرے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : اگر مومنوں میں سے دو گروہوں کے درمیان لڑائی ہو جائے تو ان کے درمیان صلح کرواﺅ ، اور اگر ان دونوں میں سے ایک دوسرے پر زیادتی کرے تو تم سب بغاوت کرنے والے کے خلاف اس وقت تک لڑو جب تک وہ اللہ کے حکم کی طرف نہ لوٹ آئے اور اگر وہ حق کی طرف پھر آئیں تو دونوں کے درمیان عدل اور انصاف سے صلح کرواﺅ ،بیشک اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو ہی پسند فرماتا ہے۔(سورة الحجرات )۔
معاشرے میں بگاڑ کی ایک بڑی وجہ بغیر تصدیق کے کسی بات کو آگے پہنچانا ہے۔ لیکن قرآن مجید میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ کوئی بھی آپ تک پہنچے تو پہلے اس کی تصدیق کر لیا کرو۔ ارشاد باری تعالی ہے :اے ایمان والو اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو خوب تحقیق کر لیاکرو ( کئی ایسانہ ہو ) کہ تم کسی قوم کو نادانی سے نقصان پہنچاﺅاور پھر تمہیں اپنے کیے پر ندامت اٹھانی پڑے۔ (سورة الحجرات )
اللہ تعالی قرآن مجید میں غصے پر قابو پانے اور معاف کرنے کا حکم فرماتا ہے :ارشاد باری تعالی ہے : جو خوشحالی اور تنگی میں راہ خدا میں خرچ کرتے ہیں اور غصے کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کرنے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ (ایسے ہی ) نیک اعمال کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔ (سورة الحجرات )۔
ایسے ہی اللہ تعالیٰ نیکی کے کاموں میں تعاون کرنے اور گناہوں سے روکنے کاحکم دیتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے : نیکی اور پرہیز گاری کے کاموں میںایک دوسرے سے تعاون کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں تعان نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ ( سورةالحجرات )۔