خیبر باغ میں سکیورٹی فورسز کا  خوارج کیخلاف کامیاب اپریشن

Nov 30, 2024

اداریہ

پاک فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آرکے مطابق 27 نومبر 2024ءکو سکیورٹی فورسز نے خوارج کی موجودگی کی اطلاع پر ضلع خیبر باغ میں انٹیلی جنس پر مبنی اپریشن کیا۔ اپریشن کے دوران سکیورٹی فورسز نے خوارج کے ٹھکانے کو موثر انداز میں نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں خوارج کے سرغنہ بتور سمیت چار خوارج جہنم واصل ہوئے، دوسری جانب کرم میں فریقین کے درمیان جنگ بندی معاہدے کے باوجود جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے جس میں مزید 5 افراد جاں بحق اور 9 زخمی ہو گئے ہیں۔دو روز قبل گورنر خیبر پی کے فیصل کریم کنڈی نے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کو دعوت دی اور کہا کہ امن و امان صوبے کا اہم مسئلہ ہے، کرم میں اکتوبر سے اب تک 150 سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں۔ضلع کرم کا دورہ کروں گا۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کو بھی دعوت دیتا ہوں کہ وہ میرے ساتھ چلیں۔
سکیورٹی فورسز کی جانب سے خوارج کیخلاف کامیاب اپریشن نہ صرف پوری قوم کیلئے اطمینان بخش ہیں بلکہ اس عزم کا بھی اظہار ہے کہ خوارج سمیت تمام دہشت گردوں اور انکے سہولت کاروں کے خاتمہ کیلئے عساکر پاکستان پرعزم ہیں۔ اس وقت بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں تین قسم کے گروہ دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ ایک تو ٹی ٹی پی والے ہیں۔ بلوچستان میں بلوچ علیحدگی پسند تخریب کاری کرتے ہیں۔تیسری طرح کی دہشت گردی فرقہ واریت ہے۔فرقہ واریت کے واقعات ملک میں کہیں بھی ہو سکتے ہیں۔ آج کل پارہ چنار میں کرم ایجنسی کا ایریا اسکی لپیٹ میں آیا ہوا ہے۔دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے حکومت کی طرف سے ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔فرقہ واریت کے خاتمے کیلئے موٹیویشن ایک کار آمد اور پائیدار طریقہ ہے۔موٹیویشن کیلئے علماءکرام کا کردار اہم ہے۔اس سے بھی اہم کردار حکومت کا ہے۔حکومت نے علماءکرام کے ذریعے مسالک کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا ہوتی ہے۔ کیا خیبر پختونخوا حکومت اپنی ذمہ داری پوری کر رہی ہے؟ جیسے ہی پارہ چنار میں ایسے واقعات رونما ہونے لگے وزیراعلی کو وہیں پہ جا کے بیٹھ جانا چاہیے تھا۔مگر علی امین گنڈاپور کی ترجیحات کچھ اور نظر آتی ہیں۔ہر دوسرے مہینے ان کی طرف سے اسلام آباد پر چڑھائی کی ہوتی ہے۔حکومتی وسائل اور سرکاری ملازمین کو ساتھ لے کر یہ نہ جانے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟جبکہ ان کا صوبہ دہشت گردی میں گھرا ہوا ہے۔ گورنر فیصل کنڈی کی طرف سے علی امین گنڈاپور کو بجا طور پر ساتھ چلنے کی پیشکش کی گئی ہے۔بہتر ہوتا کہ علی امین ایسی پیشکش گورنر کے ساتھ دیگر پارٹی کے رہنماوں اور علماءکرام کو کرتے۔ان کو ساتھ لے جا کر وہاں کے حالات کومعمول پر لانے کی کوشش کرتے۔اس سے پہلے کہ حالات مزید خراب ہوں گنڈاپور اس علاقے میں مسالک کے مابین ہم آہنگی کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔

مزیدخبریں