صاحبزادہ حامد رضا نے پی ٹی آئی کی کور کمیٹی سے استعفیٰ دے دیا۔
صاحبزادہ صاحب کی اپنی ہی ایک پارٹی سنی اتحاد کونسل ہے جو ان کی طرف سے تحریک انصاف کو مستعار دی گئی ہے۔ آج کچھ ایم این ایز پی ٹی آئی کے ہیں کچھ سنی اتحاد کونسل کے ہیں۔ صاحبزادہ حامد رضا پی ٹی آئی کور کمیٹی کے ممبر ہیں۔ کسی بھی پارٹی کی کور کمیٹی میں اسی پارٹی کے لوگ عموماً ممبر ہوتے ہیں۔ حامد رضا کو دوسری پارٹی کی کور کمیٹی میں اعزازی طور پر شامل کر دیا گیا ہے۔ ایسے لیڈران پر اس طرح سے ڈسپلن لاگو نہیں ہوتا جس طرح پارٹی کے اصل ارکان پر ہوتا ہے۔ ایسے لیڈر مروتاً ڈسپلن کی ہلکی پھلکی سی پابندی کرتے ہیں۔ان کی طرف سے تحریک انصاف کی کور کمیٹی سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اس فیصلے پر انہوں نے عمل درآمد بھی کر دیا ہے۔اپنی پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی سے انہوں نے اس فیصلے کی منظوری لی ہے یا نہیں لی۔ اس بارے میں تاریخ خاموش ہے۔ میڈیا پر کوئی خبر موجود نہیں ہے۔وہ اپنی پارٹی کے منتخب ہونے والے واحد ایم این اے ہیں بلکہ ان کی پارٹی کی طرف سے ان کو جاری کیا گیا ٹکٹ بھی الیکشن کمیشن کی طرف سے تسلیم نہیں کیا گیا تھا۔گویا یہ خود بھی اپنی پارٹی کے ایم این اے نہیں ہیں۔وہ پی ٹی آئی کی کور کمیٹی سے استعفی دے کر الگ ہو گئے۔ ان کی طرف سے یہ اعلان بھی کیا گیا ہے کہ وہ اپنی ایم این اے کی سیٹ بھی چھوڑ دیں گے۔ اس کے ساتھ انہوں نے شرط بھی باندھ دی کہ وہ اپنا استعفیٰ عمران خان کو پیش کریں گے۔عمران خان سے جیل میں ان کی ملاقات ہوتی ہے یا نہیں ہوتی۔ یہ بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ اگر ملاقات ہو جاتی ہے تو عمران خان کے سامنے وہ اپنا استعفیٰ رکھیں گے۔عمران خان نے کیا ان کے استعفے پر ہاں کہہ دینی ہے؟ بادی النظر میں عمران خان کی طرف سے ان کو استعفیٰ دینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔چونکہ انہوں نے عمران خان کی اجازت سے استعفے کو مشروط کیا ہے تو گویا ان کی طرف استعفیٰ پرنہ ہی سمجھ لیا جائے۔
ان کی طرف سے دونوں فیصلے پی ٹی آئی کے اسلام آباد میں احتجاج میں شرکت نہ کرنے پر ہونے والی تنقید کے باعث سامنے آئے عمران خان کی طرف سے مطالبات پورے نہ ہونے تک احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا گیا تھا اور مطالبات میں مینڈیٹ کی واپسی بھی شامل ہے۔ یہ ایسا مطالبہ ہے کہ آج کی حکومت اگلے پانچ سال تک بھی اسے تسلیم نہیں کرے گی۔سہل پسند لیڈر کیسے اس احتجاج کا حصہ بن سکتے تھے جس کے نتائج کئی سال بعد بھی سامنے نہیں آنے۔لہذا بہت سے لیڈر احتجاج کا حصہ بننے کی بجائے لمبی تان کر سو گئے۔
گورنر کو ہمدردی ہے تو پی ٹی آئی میں شامل ہو جائیں، عظمی بخاری۔
گورنر اور سپیکر کا حلف اٹھانے والا پارٹی وابستگی سے بالا ہو کر غیر جانبداری کا تاثر دیتا ہے جو اپنی جگہ درست ہے مگر غیر جانبداری اور مخالف پارٹی کی حمایت میں فرق ہے۔گورنر پنجاب سلیم حیدر تو ویسے بھی مسلم لیگ نون سے تعلق نہیں رکھتے۔جس صوبے میں مسلم لیگ نون کی بھاری اکثریت ہے اس میں صرف مرکز میں پیپلز پارٹی کی حمایت حاصل کرنے کے لیے اس پارٹی کا گورنر لگا دیا گیا۔ آصف زرداری بھی ایسے ہی فارمولے کے تحت صدر پاکستان بنے ہیں۔ ان کی حکومت کے ساتھ مثالی کوارڈینیشن ہے۔بل یا کسی نوٹیفکیشن پر سائن کرنے ہوں تو ان کی طرف سے گویا اجازت ہے کہ تاخیر ہو رہی ہو تو میرے دستخط خود ہی کر لیا کریں۔ ادھر گورنر صاحب صوبے میں سینگ پھنسا لیتے ہیں۔ ایک بل پرسائن کرنے سے انکار کر کے چھٹی پر بیرون ملک چلے گئے۔ سپیکر نے قائم مقام گورنر کے طور پر بل پاس کر دیا۔ وائس چانسلرز کی تعیناتی پر بھی اڑ گئے۔گویا بھاری اکثریت والی حکومت کو کہہ رہے ہیں ”ہور چوپو“ گورنر نے پی ٹی آئی کے احتجاج پر سب کو برابر نمبر دے دیے۔ پنجاب حکومت مرکزی حکومت اور پی ٹی آئی سب کو کہہ دیا کہ ہر کسی نے غلطی کی ہے۔وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری کہتی ہیں کہ پنجاب حکومت کی طرف سے سب کچھ درست اور بروقت کیا گیا۔ گورنر غلط کہہ رہے ہیں کہ پنجاب حکومت اور پولیس مظاہرین سے نمٹنے میں مکمل ناکام رہی ہے۔عظمی بخاری کا کہنا ہے کہ گورنر میڈیا میں زندہ رہنے کے لیے بے تکے بیانات دیتے ہیں۔ وہ پیپلز پارٹی چھوڑ کر پی ٹی آئی میں شامل ہو جائیں۔اس کے جواب میں گورنر صاحب نے چپ سادھ لی۔ انہوں نے اچھا ہی کیا۔ایک چپ سو سکھ۔
سردیوں کے لیے گیس کا نیا شیڈول جاری۔
سوئی ناردرن گیس پائپ لائن لمیٹڈ نے اپھارے والی گیس کا نہیں بلکہ جلانے، کھانا پکانے اور فیکٹریوں میں استعمال ہونے والی گیس کی دستیابی کا شیڈول جاری کیا ہے۔ گیس کی راشن بندی کی گئی ہے۔ شیڈول جاری کرنے والے بڑے دانشور سائنسدان بلکہ حساب دان لگتے ہیں۔ گیس چونکہ زمین سے نکلتی ہے، کہاں کہاں سے نکلتی ہے ان علاقوں کا بھی شیڈول بنانے والوں کو علم ہے۔ چنانچہ یہ جغرافیہ دان بھی ٹھہرے۔۔۔محمد الادریسی کے پائے کے۔ ان کی مہارت پائے بنانے ، پکانے اور کھانے میں بھی ہو سکتی ہے۔ صارفین کی ضرورت کا ایسے خیال رکھا گیا کہ دیہاڑی کی طرح آٹھ گھنٹے گیس فراہم کی جائے گی۔ ناشتے کے لیے صبح چھ سے نو بجے، ڈنر کے لیے بھی یہی ، شام کے اوقات مقرر ہیں۔ لنچ کے لیے دو گھنٹے دیئے گئے ہیں۔ ایک گھنٹہ باقی اوقات سے اس لیے کم رکھا گیا کہ دوپہر کو دھوپ میں روٹیاں سینکی جا سکتی ہیں۔ جن گھروں میں گرمیوں میں گیس نہیں آتی نیا شیڈول دیکھ کر ان کی خوشی سے اس قرض خواہ کی طرح دندیاں نکل رہی ہیں جس نے مقروض کی جان کھائی تھی۔ مقروض حیلے بہانے بناتا رہتا۔ ایک روز وہ سڑک کے کنارے اپنے کھیت میں ببول کیکر کے پودے لگا رہا تھا۔ قرض خواہ بھی وہاں جا ٹپکا۔ قرض کا پھر تقاضا اور اصرار کیا۔ مقروض نے کہا لو صاحب اب تیرا قرض سمجھ اتر گیا۔ قرض خواہ کے آنے پر مقروض اس کے روبرو کھڑا تھا۔ اس نے اپنی دائیں پسلی پر خارش کرنے کے لیے ااپنا بائیاں ہاتھ گھمایا تو وہ سمجھا کھیسے سے پیسے نکال کر دینے لگا ہے۔ مقروض نے ”وکھی“ کھجانے کے بعد اس کی طرف دیکھا جو خاصا مایوس ہوگیا۔ اسے بتایا بس تھوڑا انتظار کرو، تیرا قرض الٰہی مہر تجھے لوٹا دوں گا۔ یہ میں درخت لگا رہا ہوں۔ بس یہ بڑے ہوئے کہ ہوئے۔بڑے ہوں گے تو ان کے نیچے سے روئی کی ریڑھیاں، گڈے، ٹرالیاں اونٹ گزریں گے جس سے روئی کیکر کے کانٹوں میں پھنسے گی۔ وہ اتار کر بیچوں گا جس سے تیرا قرض ادا کر کے باقی پیسوں سے دو بچوں کی شادی کروں گا۔ یہ سن کر قرض خواہ بے ساختہ ہنس پڑا جس پر مقروض گویاہوا۔اب قرض اترتا ہوا نظر آرہا ہے۔ تیرے پیسے کھرے ہونے لگے ہیں تو تیرے دانت نکل رہے ہیں۔ قرض خواہ یہ کہتے ہوئے آگے چلا گیا کہ میرا قرض ادا کرنے اور بچوں کی شادی کرنے بعد جو باقی پیسے بچیں گے اس کا اپنے کھیت میں ٹیوب ویل لگوا کر ایک ٹریکٹر ٹرالی بھی خرید لینا۔
جن گھروں میں گرمیوں میں گیس نہیں آتی ان کے دانت نکلنے لگے ہیں۔ وقفے وقفے سے تین وقفوں میں 8گھنٹے گیس آئے گی۔ اور اتنی ہی بار جائے گی بھی۔ وزیر توانائی اویس لغاری کہتے ہیں کہ صارفین سستی بجلی استعمال کریں۔ گیس کو چھوڑ دیں، سستی بجلی60روپے یونٹ۔ رعایتی نرخوں پر59روپے؟۔ ویسے گیس اور بجلی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ بجلی جاتی ہے تو گیس آتی ہے۔ بجلی آتی ہے تو گیس جاتی ہے۔ ادھر بجلی بند ہوتی ہے ، گیس کمپریسر خاموش ہوتے ہیں تو گھروں میں گیس کے ہانڈی دیگچی کے پیندے تک شعلے لپکنے لگتے ہیں۔
ہفتہ‘ 27 جمادی الاول 1446ھ ‘ 30 نومبر2024
Nov 30, 2024