پی پی پی کا پہلا تاسیسی کنونشن 30 نومبر 1967ءکو لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن کی رہائش گاہ گلبرگ پر منعقد ہوا جو یکم دسمبر 1967ءکو بھی جاری رہا۔ اس کنونشن کی صدارت ذوالفقار علی بھٹو نے کی۔ 60ءکی دہائی سوشلزم کی دہائی تھی۔ پاکستان کے نوجوان کارل مارکس لینن اور ماوزے تنگ سے بہت متاثر تھے اور ان کی کتابیں بڑے شوق سے پڑھتے تھے۔ جنرل ایوب خان کے دور اقتدار میں معاشی ترقی ہوئی البتہ 22 خاندان 95 فیصد ملکی دولت پر قابض ہو گئے۔ غیر معمولی ارتکاز زر کی وجہ سے غریب لوئر مڈل کلاس اور مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے کروڑوں عوام میں احساس محرومی پیدا ہوا جس نے انقلابی سوچ کو جنم دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو جاگیر دارانہ پس منظر کے حامل سیاست دان تھے۔ انہوں نے پاکستان کے وزیر خارجہ کی حیثیت سے عالمی سطح پر شہرت حاصل کر لی۔ ان کو اینٹی انڈیا، اینٹی امریکہ لیڈر سمجھا جاتا تھا۔ 1966ءاور 67ءمیں جب جنرل ایوب خان کے خلاف عوامی سطح پر تحریک چلائی گئی تو اس تحریک کی قیادت ذوالفقار علی بھٹو نے فراہم کی۔ اس دور میں غریب عوام کی کوئی آواز نہیں تھی وہ لاوارث ہو چکے تھے۔ ڈاکٹر مبشر حسن حنیف رامے اور خورشید حسن میر نے ذوالفقار علی بھٹو کو مشورہ دیا کہ وہ سوشلسٹ پارٹی تشکیل دیں جو پاکستان کے مزدور کسان اور محنت کش عوام کی ترجمان بنے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو” اتحاد عوام“ کے نام سے انگریزی میں ایک سمری پیش کی گئی جس میں نئی جماعت کے خد و خال اور بنیادی اصول شامل تھے۔ پی پی پی کے پہلے تاسیسی کنونشن میں اسلام ہمارا دین ہے سوشلزم ہماری معیشت ہے جمہوریت ہماری سیاست ہے طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں پارٹی کے بنیادی اصول قرار پائے۔ تین رنگوں پر مشتمل ایک پارٹی پرچم منظور کیا گیا۔ پی پی پی اپنی ساخت کے اعتبار سے ایک سوشلسٹ انقلابی نظریاتی اور عوامی جماعت تھی جس کا مرکزی نعرہ ”مانگ رہا ہے ہر انسان روٹی کپڑا اور مکان “ تھا۔ یہ نعرہ خیبر سے کیماڑی تک پورے ملک میں زبان زد عام ہو گیا ۔
ذوالفقار علی بھٹو کی کرشماتی شخصیت اور انقلابی منشور کی وجہ سے پی پی پی دو تین سالوں میں پاکستان کی مقبول ترین سیاسی جماعت بن گئی۔ پی پی پی کی اصل طاقت پاکستان کے مزدور کسان اور محنت کش عوام تھے جو سب سے پہلے پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے۔ 1970ءکے انتخابات سے قبل ہالہ سندھ میں ایک کانفرنس ہوئی جس میں انتخابات میں حصہ لینے یا نہ لینے کا فیصلہ ہونا تھا۔ سوشلسٹ معراج محمد خان گروپ نے” پرچی نہیں برچھی “ کا نعرہ لگایا اور کہا کہ ہمیں انتخاب کی بجائے سوشلسٹ انقلاب کی جانب جانا چاہیے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ جب وہ سیاست اور حکومت میں اپنا بھرپور پرجوش اور سرگرم سیاسی کردار ادا کرنے کے بعد موت کی کوٹھڑی میں پہنچے تو انہوں نے اپنی غلطی کو تسلیم کیا اور کہا کہ ان کا ملٹی کلاس پارٹی بنانے کا فیصلہ درست نہیں تھا۔ نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ طبقاتی جدوجہد کے ذریعے پاکستان پر عوام کی بالادستی قائم کریں تاکہ پاکستان کے غریب عوام کے مسائل کو حل کیا جا سکے۔ پی پی پی نے 1970ءکے انتخابات میں حیران کن طور پر کامیابی حاصل کر لی اور وفاق سندھ اور پنجاب میں حکومت بنانے کے قابل ہو گئی۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے انقلابی اصلاحات نافذ کیں۔ انہوں نے غریب عوام کو سماج میں شناخت اور وقار دیا۔ ان کے دور میں پہلی بار مزدوروں کو روزگار کا تحفظ حاصل ہوا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے قوم کو ایک متفقہ آئین دیا جو آج بھی پاکستان کے اتحاد اور قومی یکجہتی کی ضمانت ہے۔ انہوں نے عالم اسلام کے سیاسی اور معاشی اتحاد کے لیے لاہور میں کامیاب اسلامی سربراہ کانفرنس منعقد کرائی۔ اپنی جان کی قیمت پر ایٹمی صلاحیت حاصل کر کے پاکستان کے دفاع کو مضبوط بنایا۔ انہوں نے پاکستان کی شکست خوردہ فوج کے مورال کو بلند کیا اور دفاع کو ایک بار پھر مضبوط بنا دیا۔ انہوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس اور حرمت کے تحفظ کے لیے پارلیمنٹ سے متفقہ قرارداد منظور کرائی اور احمدیوں کو اقلیت (غیر مسلم) قرار دلوایا۔ ذوالفقار علی بھٹو چین نواز تھے اور چین سے اپنے تعلقات کو مضبوط اور مستحکم بنا رہے تھے جبکہ دوسری جانب وہ عالم اسلام کو متحد کر رہے تھے امریکہ ان کی ان سرگرمیوں کے سخت خلاف تھا۔ 1977ءکے انتخابات میں امریکہ کو ذوالفقار علی بھٹو کو سیاسی منظر سے ہٹانے کا موقع مل گیا۔ امریکہ پاکستانی فوج اور پی این اے کے لیڈروں کی سازش کی وجہ سے ذوالفقار علی بھٹو کو نہ صرف اقتدار سے ہٹایا گیا بلکہ ان کو پھانسی کے پھندے پر بھی لٹکا دیا گیا۔ پانچ جولائی 1977ءکو جنرل ضیاء الحق نے پاکستان پر مارشل لا مسلط کر دیا۔ اس مارشل لا کے خلاف پی پی پی کے جیالوں نے قربانیوں کی ایک نئی تاریخ رقم کی۔ ان کو پھانسی کے پھندوں پر چڑھایا گیا ان کے ننگے جسموں پر کوڑے مارے گئے جیلوں میں قید کیا گیا اور شاہی قلعہ میں تشدد کیا گیا اور جلاوطنی پر مجبور کیا گیا۔ مارشل لا کے نفاذ کے بعد پی پی پی کی دوسرے درجے کی قیادت مصلحتوں کا شکار ہو گئی تاریخ کے اس موڑ پر بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو نے پارٹی کارکنوں کو قیادت فراہم کی اور جنرل ضیاءالحق کی آمریت کے خلاف عظیم جدوجہد کی۔ اپریل 1986ءمیں بے نظیر بھٹو جلا وطنی ختم کر کے لاہور واپس تشریف لائیں تو پاکستان کے عوام نے ان کا بے مثال اور پرجوش استقبال کر کے تاریخ میں ایک نیا ریکارڈ قائم کر دیا۔ طویل جدوجہد کے بعد بے نظیر بھٹو 1988ءکے انتخابات میں پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم بن گئیں۔ جنرل ضیاءالحق کی باقیات نے ان کے خلاف سازشیں جاری رکھیں اور صرف نو ماہ بعد بے نظیر بھٹو کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کر دی جو کامیاب نہ ہوسکی۔ صدر غلام اسحاق خان نے 1990ءمیں بے نظیر بھٹو کی حکومت کو برطرف کر دیا۔ بے نظیر بھٹو 1993ءکے انتخابات میں پاکستان کی دوبارہ وزیراعظم منتخب ہو گئیں۔ ساڑھے تین سال کی حکومت کے بعد ان کے اقتدار کو ایک بار پھر ختم کر دیا گیا 1997ءکے انتخابات میں نواز شریف پاکستان کے دوسری بار وزیراعظم منتخب ہو گئے۔ 1999ءمیں جنرل پرویز مشرف نے میاں نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ جنرل مشرف کے طویل اقتدار کے دوران بھی محترمہ بے نظیر بھٹو اور پی پی پی نے جمہوریت کی بحالی کیلئے جدوجہد کی۔ اکتوبر 2007ءمیں بے نظیر بھٹو جب دبئی سے کراچی واپس آئیں تو ان کا فقید المثال استقبال کیا گیا۔ کارساز کے مقام پر ان کی ریلی پر خود کش حملہ ہوا جس میں ڈھائی سو جیالے شہید ہو گئے اور 500 زخمی ہوئے۔ بے نظیر بھٹو کو 27 دسمبر 2007ءکو اس وقت لیاقت باغ میں شہید کر دیا گیا جب وہ عوام سے خطاب کر کے واپس جا رہی تھیں۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد سندھ میں شدید رد عمل سامنے آیا اور سندھ کے عوام نے پاکستان نہ کھپے کہ نعرے لگانے شروع کر دیے۔ اس نازک موقع پر آصف علی زرداری نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کر کشیدہ صورتحال کو سنبھالا۔ وہ ایک سیاسی وصیت کی بنیاد پر پی پی پی کے چیئرمین بن گئے۔ 2008ءکے انتخابات میں بی بی شہید کا خون رنگ لایا اور پی پی پی مرکز اور سندھ میں انتخابات جیت گئی۔ آصف علی زرداری پاکستان کے صدر منتخب ہو گئے اور ان کا پارٹی کارکنوں اور عوام کے ساتھ رابطہ ہی کٹ گیا جس کی وجہ سے پی پی پی کو ناقابل تلافی نقصان ہوا اور وہ سندھ کی حد تک سکڑ کر رہ گئی۔ پنجاب کا سیاسی قلعہ اس کے ہاتھ سے نکل گیا۔ بلا شک بلاول بھٹو زرداری نے پی پی پی میں ایک نیا ولولہ اور جوش پیدا کیا۔ ان کی قائدانہ صلاحیتوں کو عوام نے قبول کر لیا ہے وہ وزیر خارجہ کے طور پر بھی کامیاب لیڈر ثابت ہوئے ہیں۔ آصف علی زرداری نے پارٹی کی قیادت سنبھالنے کے بعد سوچی سمجھی پالیسی کے تحت پی پی پی کی نظریاتی شناخت ہی ختم کر دی اور سرمائے کا اثر و رسوخ بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں لوئر مڈل کلاس کے لوگ بھی اسمبلیوں میں پہنچ سکتے تھے جس کا آج لوگ تصور بھی نہیں کر سکتے۔ 8 فروری 2024ءکے انتخابات میں پی پی پی ایک بار پھر صوبہ سندھ اور بلوچستان میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی اور وفاق میں مسلم لیگ نون حکومت کی اتحادی جماعت بن گئی۔ آصف علی زرداری دوسری بار پاکستان کے صدر منتخب ہوگئے۔ پی پی پی کی نظریاتی اور عوامی شناخت کو بحال کرنے کے لیے آل پاکستان ورکرز کنونشن بلایا جانا چاہیے تاکہ پارٹی کے کارکنوں کو اعتماد میں لے کر نئے حالات کے مطابق پی پی پی کا منشور بھی تیار کیا جائے اور اس کی شناخت بھی تبدیل کی جائے۔ اسے ایک بار پھر عوامی اور نظریاتی پارٹی بنایا جائے تاکہ یہ جماعت ایک بار پھر پورے پاکستان میں پھیل سکے۔ پی پی پی کے 57 سال شاندار یادگار اور تاریخ ساز رہے ہیں ۔