انسانی حقوق کے طالب علم کی حیثیت سے ہم نے انسانی حقوق بارے گزشتہ مضامین میں انسانی حقوق کے تصورات‘ تحریک‘ اور ان کے ارتقاءپر طبع آزمائی کی ہے۔ ان مضامین میں انسانی حقوق کے قدیم تصورات سے لے کر میگنا کارٹا اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ 1948ءتک بحث موجود ہے۔ اس سلسلے کا اگلا اہم سنگ میل بین الاقوامی معاہدہ برائے شہری اور سیاسی حقوق کو گردانا جاتا ہے۔ بسا اوقات انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ اور بین الاقوامی معاہدہ برائے شہری اور سیاسی حقوق آپس میں گڈمڈ ہوجاتے ہیں۔یاد رہے کہ یہ دونوں اپنی نوعیت‘ وقت‘مقاصد اور دائرہ کار کے لحاظ سے مختلف دستاویزات ہیں۔مذکورہ معاہدہ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی بذریعہ قرارداد نمبر i××_2200A 16 دسمبر 1966ءمنظور کر کے دستخط‘ توثیق‘ اور الحاق کے لیے پیش کیا گیا اور 23 مارچ 1976ءکو نافذالعمل ہوا۔پاکستان نے اس معاہدہ پر 17 اپریل 2008ءکو دسخط کیے اور 23 جون 2010ءکو الحاق اور توثیق کی اب تک 174 ممالک اس معاہدہ کی توثیق کرچکے ہیں۔
یہ معاہدہ کل 53 آرٹیکلز یا شقوں پر پر مشتمل ہے جنھیں 6 مختلف موضوعات میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ان موضوعات میں قومیت‘ ریاست‘ ریاست کا انسانی حقوق کو یقینی بنانا‘ اقوام متحدہ کی طرف سے انسانی حقوق سے متعلقہ انتظامی معاملات اور ضروری وضاحتیں شامل ہیں۔ اس معاہدہ کی رو سے تمام قومیں حق خود ارادیت رکھتی ہیں اور اپنے مقاصد کے حصول کے لیے باہمی مفاد اور بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں بغیر کسی تعصب کے اپنے قدرتی وسائل آزادانہ طور پر خرچ کرسکتی ہیں۔ فریق ریاستیں اپنی دیکھ بھال نہ کر سکنے والے علاقوں اور ٹرسٹ کے علاقوں میں حق خود ارادیت کو فروغ دیں گی اور انکے ہر قسم کے حقوق کا احترام کریں گی۔ اپنے زیر اثر علاقہ میں انسانی حقوق کا احترام یقینی بنانے کے لیے موثر قانون سازی کریں گی۔ تمام شہری اور سیاسی حقوق عورتوں اور مردوں کے لیے یکساں ہوں گے۔ اس معاہدہ کی رو کی کسی شق سے روگردانی نہیں ہوسکتی مگر ہنگامی صورتحال میں عارضی پہلو تہی ہو سکتی ہے۔ اس کے لیے ریاستوں کو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو رپورٹ کرنا ہوگا اور اس پہلو تہی کی وجوہات اور مدت کو بتانا ہوگا۔
ہر انسان کو اپنی زندگی گزارنے کا حق حاصل ہوگا جن ممالک میں سزائے موت ختم نہیں کی گ?ی صرف سنگین نوعیت کے جرائم میں ہی سزائے موت دی جاسکے گی اور یہ فیصلہ بھی کسی مجاز عدالت کے اختیار میں ہوگا۔ اٹھارہ سال سے کم عمر اور حاملہ عورت کو سزائے موت نہیں دی جائیگی البتہ عام معافی دی جا سکے گی۔ کسی کو تشدد اور ظالمانہ سلوک کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا اور کسی کو اس کی آزادانہ رضامندی کے بغیر طبی یا سائنسی تجربہ سے نہیں گزارہ جائے گا۔ جبری مشقت‘ غلامی اور غلاموں کی تجارت کی تمام اقسام ممنوع ہوں گی۔ ہر کسی کو آزادی اور ذاتی حق کا تحفظ حاصل ہے۔ تادیبی کارروائی قانون کے مطابق ہی عمل میں لائی جا سکے گی اور ملزم کو گرفتاری سے پہلے اس کی گرفتاری کی وجوہات کے متعلق بتایا جائے گا۔ نو عمر ملزمان کو بالغ ملزمان سے الگ رکھا جائے گا اور اصلاحی قید خانوں کا نظام قیدیوں کے علاج پر مشتمل ہوگا اور ان کی عمر اور قانونی حیثیت کے مطابق موزوں برتاو کیا جائے گا۔ سول نوعیت کی خلاف ورزی پر کسی کو جیل نہیں بھیجا جائے گا۔
ہر ایک کو فکر‘ ضمیر اور مذہب کی آزادی حاصل ہوگی اور اس حق میں اپنی مرضی کا مذہب یا عقیدہ اپنانے کی آزادی شامل ہے۔ دیگر لوگوں کے حقوق‘ احترام‘ قومی تحفظ‘ امن عامہ‘ اخلاقیات کی حدود کے اندر ہر کسی کو اپنی آرا رکھنے‘ اور اظہار رائے کا حق ہوگا۔ جنگ کے لیے قومی‘ نسلی‘ اور مذہبی منافرت کا پر چار قانونی طور پر ممنوع ہوگا۔ پر امن طور پر اکٹھے ہونے کے عمل کو تسلیم کیا جائے گا۔ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ہر کسی کو ٹریڈ یونین اور انجمن سازی یا اس میں شامل ہو کر دیگر لوگوں کے ساتھ ملنے ملانے کا حق حاصل ہوگا۔ پیدائش کے فوری بعد ہر بچے کا اندراج اور نام رکھا جائے گا اور شہریت حاصل کرنے کا حق حاصل ہوگا۔ ہر شہری کو یہ حق اور موقع حاصل ہوگا کہ وہ رائے دہی کے تحت خود منتخب یا دوسروں کو منتخب کرے۔نسلی‘ مذہبی‘ اور لسانی اقلیتوں کو اپنی ثقافت کے مطابق عمل کرنے کا حق حاصل ہوگا۔
کسی بھی ریاست کے شہریوں کو جو حقوق میسر ہوتے ہیں اسکی بنیاد وہ عمرانی معاہدہ ہے جو ریاست اور اس کے شہریوں کے درمیان آئین کی شکل میں معرض وجود میں آتا ہے اور مندرجہ بالا بین الاقوامی معاہدہ کی رو سے اقوام متحدہ کی ہر ممبر ریاست پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنی ریاست کے اندر بذریعہ آئین تمام سیاسی و شہری حقوق کی ضمانت فراہم کرے۔ دوسری صورت میں مندرجہ بالا بین الاقوامی معاہدہ برائے سیاسی و شہری حقوق کی مرتکب ہوتی ہے۔
بین الاقوامی معاہدہ برائے سیاسی وشہری حقوق کی روشنی میں اسلام آباد ڈی چوک میں تحریک انصاف کے احتجاج پر حکومت کی جانب سے سیاسی کارکنوں کو بزور طاقت کچلنے اور ان پر فائرنگ کے واقعہ نے بہت سے نئے سوالات کو جنم دیا ہے جن میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا عوام سے احتجاج کا حق چھین لیا گیا ہے؟