نومبر: ایک اور المیہ

جو کچھ 26اور27نومبر2024 ءکی درمیانی شب اسلام آباد کے ڈی چوک میں ہوا اسے تا دیر یاد رکھا جائےگا۔ سوشل میڈیا جہاں ایسی مستند خبریں دیتا ہے جو مین سٹریم میڈیا کسی دباو¿ میں آکر دینے سے قاصر ہوتا ہے۔ وہیں سوشل میڈیا ہر ضابطے قاعدے قانون سے مبرا ہونے کے باعث فیک نیوزبھی شر کی طرح پھیلا دیتا ہے۔ سوشل میڈیا کے دونوں منفی اور مثبت پہلو پیش نظر رکھنا ہوتے ہیں۔ پس منظر پر نظر رکھنے والے لوگ لمحوں میں حقیقت تک پہنچ جاتے ہیں مگر بے شمار لوگ فیک نیوز کو حقیقت مان کر اپنا ذہن بنا لیتے ہیں۔ ملک کے دور دراز کے علاقوں اور بیرون ملک سے بھی فون آئے کہ ڈی چوک میں سنا ہے تین سو لوگ اپریشن میں مار دیئے گئے ہیں۔ کیا واقعی ایسا ہوا ہے؟ میڈیا ہر جگہ پل پل کی خبریں پہنچا دیتا ہے۔ مین سٹریم میڈیا پر آکر وزیر داخلہ اور وزیر اطلاعات نے دعویٰ کیا کہ ڈی چوک میں ایک بھی گولی نہیں چلی، تحریک انصاف کا ایک شخص ہلاک نہیں ہوا۔ ان صاحبانِ علم و حکمت اور اکابرینِ حکومت کے اس بیان کو کیسے دیکھا اور سنا گیا؟ انہیں دیکھنے اور سننے والوں کیلئے سوشل میڈیا چینل ٹیون کرنے کا آپشن موجود ہے۔ وہاں تین سو ہلاکتوں ایک ہزار کے لاپتہ ہونے کی ہیجان خیزاطلاعات گردش کر رہی تھیں۔ رابطہ کرنے والوں کو بتایا کہ تحریک انصاف کے ایک لیڈر کی طرف سے 40دوسرے کی طرف سے 20 ہلاکتوں کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا گیا کہ ان کے پاس مرنے والے 8 لوگوں کے نام ا ور کوائف آئے ہیں۔ 40اور20ہلاکتوں کی بات مفروضے کی بنیاد پر کی گئی۔ انکے دعوے کو مان لیا جائے تو جاں بحق ہونے والوں کی تعداد8 ہے۔ تین سو تعداد بے بنیاد خبر ہے۔ ایک فرد کی موت بھی المیہ ہے۔ پی ٹی آئی کے جتنے بھی لوگ مارے گئے، پولیس اور رینجرز کے اہلکار بھی تو احتجاج کے دوران مظاہرین کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ ان میں سے ہر ایک کا خون کسی نہ کسی کے سر ہے۔
عمران خان نے جیل سے14نومبر کو24نومبر کیلئے احتجاج کی کال دی تھی۔اس احتجاج کا اسلام آباد کو مرکزبنانے کا اعلان کیا گیا تھا۔ انہوں نے تین مطالبات رکھے گئے۔ خان صاحب نے چند ماہ قبل مذاکرات کے آپشن کے خاتمے کا اعلان کیا تھا۔ احتجاج کے اعلان کے ساتھ ہی علی امین گنڈا پور کو ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات کی اجازت دے دی۔ احتجاج کی تیاریاں اور مذاکرات ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ پی ٹی آئی کا مو¿قف ہے کہ حکومت بے اختیار ہے اس کے ساتھ بات نہیں کریں گے۔ رانا ثناءاللہ سمیت کچھ حکومتی ذمہ داروں نے پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین مذاکرات کی تصدیق کی۔
عمران خان نے احتجاج کے اعلان کیساتھ تین مطالبات رکھے اور ان کی منظوری تک احتجاج جاری رکھنے کا اعلا ن کیا گیا تھا۔ مطالبات میں سر فہرست1 چھبیسویں آئینی ترمیم کا خاتمہ-2۔ عمران خاں سمیت جیلوں میں قید پی ٹی آئی کے وابستگان کی رہائی،-3مینڈیٹ کی واپسی۔ تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ8فروری کو اس نے179سیٹیں جیتی تھیں۔وہ مینڈیٹ ان کو واپس کیا جائے۔ پی ٹی آئی کے حلقوں کے بقول یہی ایک مطالبہ مان لیا جائے تو باقی دو نہ بھی مانے جائیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
عمران خان نے مطالبات پیش کرتے ہوئے احتجاج کا اعلان ضرور کیا۔ اسلام آباد کو مرکز بھی بنا دیا مگر ان کی طرف سے احتجاج کے مقام کا تعین نہیں کیا گیا تھا۔ڈی چوک میں احتجاج کا فیصلہ بشریٰ بی بی کی جانب سے کیا گیا جس کی عمران خان نے مخالفت نہیں کی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے اسلام آباد میں احتجاج روک دیا تھا۔ اس کے باوجود پی ٹی آئی نے احتجاج کی کال واپس نہیں لی۔ حکومت نے اسلام آباد میں احتجاج روکنے کیلئے ہر ممکن کوشش کی۔ تحریک انصاف کے بڑے لیڈروں کے ذریعے خان صاحب کو ڈی چوک کے علاوہ کہیں اور احتجاج کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی، خان سے سلمان اکرم راجہ اور اسد قیصر جیل میں جا کر ملے۔ کے پی حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف کو لطیف خان کھوسہ کے بقول پشاور سے جیٹ کے ذریعے پنڈی اڈیالہ بھیجا گیا۔ بیرسٹر سیف کی خان صاحب سے ملاقات ہوئی بیرسٹر صاحب کا کہنا ہے کہ خان صاحب نے ڈی چوک کے بجائے سنگجانی میں احتجاج لے جانے پر آمادگی ظاہر کی تھی مگر بشریٰ بی بی ڈی چوک جانے پر مصر رہیں۔ وزیر داخلہ محسن نقوی بھی بعینہ ایک فقرے کے اضافے سے یہی بیان دے چکے ہیں۔ اضافی فقرہ یہ تھا کہ عمران خان کے اوپر بھی ایک قیادت ہے جس نے کہا ڈی چوک میں ہی احتجاج کریں گے۔
احتجاج کے دوران احتجاج کرنیوالے اور سیکورٹی اہلکار کتنے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے؟ 6 اہلکار تو شہید ہوئے ہی ہیں۔ تحریک انصاف کا حکومت کے بقول کوئی فرد جاں بحق نہیں ہوا۔ عالمی سطح پر حکومت اپنا دعویٰ ثابت کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ بی بی سی اور الجزیرہ اسکے برعکس تصویر پیش کر رہے ہیں۔ 
وزیر اعظم شہباز شریف کی طرف سے کہا گیا کہ 9مئی کے کرداروں کو سزا دے دی جاتی تو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ حکومت نے جس کمٹمنٹ کے ساتھ 26ویں آئینی ترمیم کی وہی نو مئی کے کرداروں کو سزا کے حوالے سے کمٹمنٹ دکھائی ہوتی تو یہ سزا سے ہمکنار ہو چکے ہوتے۔ پی ٹی آئی کہتی ہے۔8فروری کے نتائج کو اگرنہ بدلا جاتا تو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ 
پرویز مشرف کے دور میں مسلم لیگ ن کے احتجاجیوں کیلئے غنڈے شر پسند اور امن دشمن کے الفاظ استعمال ہوتے تھے۔مظاہرے کرنے والوں میں ایسے لوگ ہوں گے لیکن سارے کے سارے ایسے نہیں تھے۔ آج پی ٹی آئی کے احتجاجیوں کو شر پسند فتنہ کے نام دیئے جاتے ہیں۔مظاہرین میں ایسے لوگ ضرور ہوں گے جو قابلِ معافی نہیں لیکن سارے کے سارے ایسے نہیں تھے۔ کچھ وزیروں کا کہنا ہے کہ انکے ساتھ خوارج اور دہشتگردوں کی طرح نمٹا جائے۔ خوارج اور دہشتگردوں کیخلاف بندوق گولی، بمباری سب استعمال ہوتا ہے۔ ان کی بات پہ بات ہو رہی ہے : ڈی چوک میں کیا انکو ایسا ہی سمجھ لیا گیا تھا؟ یہ کوئی معرکہ حق و باطل نہیں تھا۔اسرائیل بمقابلہ فلسطین اور بھارت بالمقابل کشمیر نہیں تھا۔احتجاج کرنے والے اور روکنے والے ہم وطن اور ہم نسل ہیں۔ایک دوسرے کے ہاتھوں زخمی ہونے والوں میں ہو سکتا ہے کہ کئی آپس میں عزیز رشتہ دار بھی ہوں۔
آج کے پی کے اور بلوچستان میں دہشت گردی پھر جڑیں پکڑ رہی ہے جس میں ٹی ٹی پی اور بلوچ علیحدگی پسند ملوث ہیں۔ ٹی ٹی پی کی سہولت کاری افغان مہاجرین کے بھیس میں کچھ پناہ گزین کرتے ہیں۔ وزیر داخلہ محسن نقوی نے آئندہ ایسے احتجاج روکنے کیلئے اسلام آباد سے 31 دسمبر تک سوائے رجسٹرڈ کے تمام افغان مہاجرین کو نکل جانے کی وارننگ دی ہے۔ ایسی ہی کمٹمنٹ دہشتگردی کے خاتمے کے لیے بھی ہونی چاہیے۔ پاکستان کو افغان مہاجرین سے ماسوائے رجسٹرڈ کے، پاک کردیا جائے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...