قائد اعظم کس قسم کا پاکستان چاہتے تھے۔ آئیں اُن سے ہی پوچھ لیتے ہیں۔ حصولِ پاکستان کے بعد 1947ءمیں لاہورکے ایک جلسے میں قائد اعظم نے ارشاد فرمایا : ”ہم میں سے ہرشخص نہ صرف پاکستان کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دینے کا عہد کرے بلکہ اس عزم کا بھی اظہار کرے کہ ہمیں پاکستان کو اسلام کاقلعہ بنانا ہے اوراِیسی قوموں کی صف میں کھڑا کرنا ہے جن کا مقصد پاکستان کے اندرہی نہیں بلکہ ہر جگہ امن قائم کرنا ہو۔“ آئیں انفرادی و اجتماعی طورپر اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکیں تو سہی کہ کیا آج 77 سال بعد بھی ہم نے قائد اعظم کے اس فرمان کو پُورا کیاہے؟ یقینا جواب سوفیصد نفی میں ہے۔ کسی بھی قوم کے بننے بگڑنے کے لیے 77سال تھوڑے نہیں ہوتے؟ 77سال میں ہم نے کسی ایک شعبے میں بھی ترقی کی ہے ؟چائنہ ہم سے ایک سال بعد آزاد ہوا۔ وہ پوری دنیا پرحکمرانی کرنے کے خواب دیکھ رہاہے اور ہماری ترقی کا یہ عالم ہے کہ 77سالوں کے بعد بھی ہم آئی ایم ایف سمیت تقریباً سبھی ملکوں کے مقروض ہیں۔ معیشت، معاشرت، تعلیم، صنعتی میدان میںہرجگہ ہم ناکام ہی دکھائی دیتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور خاتم النبیین کی تعلیمات سے ہمارا دُور دُور تک کوئی واسطہ نہیں رہا ۔
یوں تو سیّد بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہوبتاﺅ تو مسلمان بھی ہو
73ءکا آئین متفقہ بنایا گیا جسے سب نے تسلیم کیا تھا مگر آج 73ءکے آئین کی کسی ایک دفعہ پر بھی ہم عمل کر سکے ہیں؟ 73 ءکے آئین پر عمل درآمد کرنے کی بجائے ہم راتوں رات نئی شِقیں اپنے مفادات کیلئے مسلسل لانے میں مصروف ہیں۔ بانی پاکستان کے فرمان اور 73ءکے آئین کیمطابق 1988ءتک پورے ملک میں اُردو کو بحیثیت قومی و سرکاری زبان نافذ کرناتھا۔ ہم 77سال بعد بھی اس کو نافذ نہیں کر سکے۔ ہم نے اسے اسلامی، فلاحی، جمہوری مملکت بناناتھی۔ نہ تو اسلام کو ہم نافذ کر سکے۔ فلاحی کیا بنانا تھا۔ اشرافیہ کی لُوٹ مار کے پیسوں کی ادائیگی کیلئے عام شہری سے ٹیکس کی مد میں وصول کیے جا رہے ہیں۔ نہ ہی ہم جمہوریت کو 77 سالوں میں لا سکے۔ شاہد خاقان عباسی سابق وزیر اعظم بار بار ببانگ دہل کہہ چکے ہیں کہ یہاں الیکشن چُرائے جاتے ہیںبلکہ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے بھی چُرائے ہیں لہٰذا 77سال سے ”جمہوریت“ کی آڑ میں غیر جمہوری قوتیں ہم پرمسلط ہیں۔ عوام کی حکومت عوام پر جمہوریت ہے۔ جب تک حقیقی جمہوریت نہیں آئے گی نہ عوام کے مسئلے حل ہوں گے نہ ہی روزگار، معیشت میں بہتری آئے گی نہ تعلیم میںہم آگے بڑھ سکیں گے۔ جناب حمید نظامی مرحوم نے نوائے وقت کی اشاعت کے دو مقاصد کا ذکر فرمایا تھا ایک تو کلامِ اقبال کو عام کرنا اور دوسرا قومی زبان اُردو کی خدمت۔ ہم ہر سال علامہ اقبال کی برسی پرگارڈز کی تبدیلی کر کے خود کو بری الذمہ سمجھ لیتے ہیں۔ ہمیں چاہیے تھا کہ شروع ہی میں چھوٹی کلاسوں میں بچوں کو کلامِ اقبال سے روشناس کراتے۔ ہمارے ہاں جوبھی حکمران آتے رہے اُن کی نظر میں تعمیرِ پاکستان کا مطلب ہی شاید محلات تعمیر کرنا تھا۔ اُن کی ترجیحات ہی کچھ اورہوتی ہیں۔ قائد اعظم سے کسی نے سوال کیا تھا کہ اگر آپ کو کلامِ اقبال او ر کسی مملکت میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کیلئے کہا جائے تو آ پ کس کو منتخب کریں گے تو قائد اعظم نے فرمایا کہ میں کلامِ اقبال کو منتخب کروں گا کیوں کہ اس میں اس قدر قوت و تاثیرہے کہ اس سے کئی مملکتیں پیدا کی جا سکتی ہیں۔ اقبال کی شاعری میں دلوں کو تسخیر کرنے کی قوت تھی۔ یہ اقبال کی شاعری تھی جس نے مسلمانوں میں نہ صرف آزادی کی روح پھونکی بلکہ عمل کرنے کی راہیں بھی متعین کیں۔ قائد اعظم نے 1943ءمیں مسلم لیگ کراچی کے اجلاس میں کہا کہ : ”ایک خدا، ایک قرآن، ایک رسول، ایک اُمت یہی ہمارا نعرہ ہے۔“
آج وطنِ عزیز میں جن جن مسائل سے ہم دوچار ہیں۔ اخلاقیات کا تو جنازہ ہی نکل چکا ہے۔ خاتم النبیین نے ارشاد فرمایا تھا کہ ”مجھے اعلیٰ اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث فرمایا گیا ہے“ اُن کی حیاتِ مقدسہ ہمارے لیے ایک نمونہ ہے۔ آج سوشل میڈیا میں جس طرح فحش گوئی، گندی گالیاں ایک دوسرے کو دی جاتی ہیں۔ نہ ہم نے اپنے خالق رب تعالیٰ کی کوئی مانی نہ خاتم النبینن کی تعلیمات پر عمل کیا اور نہ اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن پاک سے راہنمائی حاصل کی۔ آج پوری دنیا میں ہمارا مذاق بنا ہوا ہے۔ ہمیں بھکاری سمجھا جاتا ہے، سبب یہ ہے کہ قانون کی حکمرانی نہیں ہے۔ ”احتساب“ نہیں ہے۔ عدل و انصاف نہیں۔ پورا معاشرہ تباہ و برباد ہو چکا ہے۔
چند روز قبل لاہور میں ایک بزرگ چودھری محمد خورشید صاحب سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ چونکہ اُنھوں نے اس مملکت کو خود بنتے دیکھا ہے اورآج ان بگڑتے حالات میں اُن کا دِل بھی خُون کے آنسو روتا ہے۔ اُنکا بھی کہنا ہے کہ ہمیں تو کلامِ اقبال سے بچوں کو روشناس کرانا چاہیے تھا۔ 96 سالہخورشید صاحب کو اللہ تعالیٰ صحتِ کاملہ کے ساتھ عمر درازعطا فرمائے۔ آمین! آئیے بقول قائد اعظم وطنِ عزیز کو اسلام کا قلعہ اور امن کا گہوارہ بنانے کیلئے جدوجہد کریں اور اقبال و قائد کے پاکستا ن کی تلاش کریں۔