وزیراعظم محمد شہبازشریف نے ہدایت کی ہے کہ اسلام آباد پر لشکر کشی کرنے والے شرپسند ٹولے کیخلاف فوری قانونی چارہ جوئی کی جائے اور انکی شناخت کرکے انہیں قرار واقعی سزا دلوائی جائے۔ اس سلسلہ میں استغاثہ کے نظام میں بہتری لائی جائے۔ انہوں نے اس امر کی بھی ہدایت کی کہ اسلام آباد یا ملک کے کسی بھی شہر پر ذاتی مقاصد کے حصول کیلئے لشکر کشی روکنے کی جامع حکمت عملی مرتب کی جائے۔ اس سلسلہ میں گزشتہ روز اسلام آباد میں وزیراعظم شہبازشریف کی زیرصدارت امن و امان کی صورتحال کے حوالے سے جائزہ اجلاس منعقد ہوا جس میں خطاب کرتے ہوئے شہبازشریف نے کہا کہ تاریخی کرپشن اور اپنی حکومت کو بچانے کیلئے ملک کو دیوالیہ کرنے کی مذموم سازشیں رچانے والے اب قانون کی گرفت میں آئے ہیں۔ ان عناصر نے قانونی راستہ اپنانے کی بجائے ملک بھر میں انتشار کی فضا پھیلانے کی کوشش کی۔ یہ کیسے انقلابی ہیں جو اس ملک کی تباہی اور انتشار پھیلانے کی مذموم کوشش کر رہے ہیں۔ وزیراعظم کے بقول شر پسند ٹولے کے منتشر ہوتے ہی سٹاک ایکسچینج ایک لاکھ پوائنٹس کی حد عبور کرگئی ہے۔ احتجاج سے ملک کو اربوں روپے کا نقصان ہوا ہے جبکہ حکومت نے برداشت سے کام لیا۔ انہوں نے شرپسند عناصر سے نمٹنے کیلئے ملک بھر میں اینٹی روائٹس فورس قائم کرنے کی بھی ہدایت کی اور کہا کہ اس فورس کو بین الاقوامی طرز پر پیشہ ورانہ تربیت اور ضروری سازوسامان سے لیس کیا جائے۔ علاوہ ازیں نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کی 26ویں سکیورٹی ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہبازشریف نے کہا کہ اسلام آباد میں احتجاج کی آڑ میں ہزاروں لوگوں نے ہتھیاروں اور اسلحہ کے ساتھ دھاوا بولا۔ وہ درحقیقت ملک کے معاشی استحکام کو تباہ کرنا چاہتے تھے جو پاکستان کے دشمنوں کا ایجنڈا ہے جبکہ ہم متحد ہو کر ملک کا مستقبل خوشحال بنا سکتے ہیں۔
بے شک سیاسی جماعتوں کو کسی حکومتی پالیسی کیخلاف احتجاج کیلئے سڑکوں پر آنے کا حق حاصل ہے اور پرامن احتجاج میں کوئی مضائقہ بھی نہیں کیونکہ اختلاف رائے کا اظہار ہی جمہوریت کا حسن ہے جس سے حکمرانوں کی من مانیوں کی روک تھام اور سسٹم کو خوش اسلوبی کے ساتھ آگے بڑھانے اور مضبوط بنانے میں مدد ملتی ہے تاہم احتجاج کی آڑ میں اگر ملک میں انتشار و خلفشار پیدا کرنے کا راستہ اختیار کیا جائے جس سے ملک کے شہریوں کی جان و مال اور سرکاری املاک کے تحفظ کیلئے بھی خطرات پیدا ہو جائیں تو ایسا کوئی اقدام جمہوریت کو گہنانے اور ملک کی سلامتی کو خطرات میں ڈالنے سے تعبیر ہوگا۔ بدقسمتی سے پاکستان تحریک انصاف نے سابقہ اور موجودہ دہائی کے دوران تعمیری اور مثبت سیاست کی بجائے تخریبی سیاست کا راستہ اختیار کیا ہے اور اپنے مخالف سیاسی قائدین کے ساتھ ساتھ ریاستی انتظامی اداروں اور انکے سربراہان کو عامیانہ انداز میں رگیدتے ہوئے ملک اور اسکے سسٹم کا تشخص خراب کرنے کی کوشش کی ہے۔ پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین عمران خان نے اودھم مچانے والی سیاست کا راستہ اپنے لئے عوامی مقبولیت حاصل کرنے کی خاطر اختیار کیا جو کسی صورت مثبت تعمیری سیاست کے زمرے میں نہیں آتا جبکہ افراتفری اور انتشار کی اس سیاست سے 2012ءسے اب تک ملک کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا ہے۔ حکومتی گورننس کے کمزور ہونے کا تاثر پیدا ہونے سے ملک کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کو بھی ملک کی سلامتی و خودمختاری کیخلاف اپنی گھناﺅنی سازشیں پروان چڑھانے کا موقع مل جاتا ہے۔
چاہیے تو یہ تھا کہ 2014ءکی دھرنا تحریک میں پی ٹی آئی اور عوامی تحریک کے کارکنوں کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہ دی جاتی اور ایسے کسی بھی اقدام کو ریاستی اتھارٹی بروئے کار لا کر روک دیا جاتا مگر اس وقت پارلیمنٹ اور سسٹم کو بچانے کے نام پر حکومت کی جانب سے دھرنے میں موجود شرپسندوں کے ساتھ نرم رویہ اختیار کیا گیا چنانچہ ان عناصر نے نہ صرف اس دھرنے کے دوران پارلیمنٹ ہاﺅس اور وزیراعظم ہاﺅس سمیت مختلف سرکاری عمارات پر دھاوا بولنے کا سلسلہ شروع کیا بلکہ اسکے بعد انتشاری سیاست پی ٹی آئی کا چلن بنا لیا گیا جس کا مظاہرہ پی ٹی آئی کے دور اقتدار میں بھی کیا جاتا رہا۔ بالآخر اس سیاست کا نتیجہ ملک کے سکیورٹی اداروں بشمول جی ایچ کیو اور جناح ہاﺅس لاہور پر 9 مئی کے تخریب کاری پر مبنی دھاوے کی صورت میں برآمد ہوا۔
اس تخریب کاری میں ملوث لوگوں کی گرفتاریاں عمل میں آئیں اور ان کیخلاف مروجہ ملکی قوانین کے تحت مقدمات درج ہوئے تو مقدمات کی برووقت سماعت نہ ہونے کے باعث یہ مقدمات لٹکے رہے اور انصاف کی عملداری کا عمل انتہائی سست رہا۔ اگر 9 مئی کے واقعات میں ملوث عناصر کو عدالتی عملداری میں فوری سزائیں مل جاتیں تو یقیناً 24 نومبر کی فائنل کال کی صورت میں پی ٹی آئی کو اپنی انتشاری سیاست مزید آگے بڑھانے کا موقع نہ ملتا۔ اس سیاست میں پی ٹی آئی اور اسکی قیادت کے حوصلے اتنے بلند ہوئے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے اسلام آباد میں احتجاج کرنے سے روکنے کے احکام صادر ہونے کے باوجود وزیراعلیٰ خیبر پی کے اور عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے پشاور سے ریلی نکال کر ڈی چوک اسلام آباد تک لے جانے کا آغاز کر دیا اور اس ریلی کے دوران پی ٹی آئی کے مسلح کارکن جن میں افغان باشندے بھی شامل تھے‘ اپنے راستے میں آنیوالی سرکاری تنصیبات کا حشرنشر کرتے رہے جبکہ انکے پرتشدد حملوں سے پولیس اور رینجرز کے چھ اہلکار شہید اور دو سو کے لگ بھگ زخمی ہوئے۔
اسی بنیاد پر ڈی چوک کو شرپسندوں نے پاک کرنے کیلئے 25 اور 26 نومبر کی درمیانی رات پولیس‘ رینجرز اور ایف سی کی جانب سے مشترکہ حکمت عملی کے تحت مربوط اپریشن کیا گیا اور ڈی چوک کو مظاہرین سے واگزار کرالیا گیا۔ پی ٹی آئی نے اس اپریشن کے بعد اپنا احتجاجی پروگرام ختم کر دیا تاہم اس کا افراتفری کا ایجنڈا بدستور قائم ہے جس سے کسی بھی وقت اور ملک کے کسی بھی حصے میں ناخوشگوار فضا پیدا ہو سکتی ہے۔ اس سیاست سے ملک کی معیشت اور گورننس کو ہی نہیں‘ خود پی ٹی آئی کو بھی ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے جس کا مستقبل داﺅ پر لگ گیا ہے۔ بلوچستان اسمبلی نے پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کی قرارداد منظور کرلی ہے جبکہ پنجاب اسمبلی میں بھی قرارداد پیش کر دی گئی ہے۔ اس جارحانہ سیاست کی وجہ سے ہی پی ٹی آئی کے عہدیداروں اور ارکان پارلیمنٹ کی جانب سے استعفے دینے کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے جن میں پارٹی کے سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجا اور حامد رضا کاظمی کے استعفے قابل ذکر ہیں۔ اگر پی ٹی آئی اپنا یہی سیاسی چلن برقرار رکھتی ہے تو اس کا سیاسی مستقبل تاریک ہو سکتا ہے اس لئے پی ٹی آئی کی قیادت کو سوچ بچار کرکے انتشاری سیاست کا راستہ ترک کر دینا چاہیے اور سیاسی کشیدگی کے خاتمہ کیلئے قومی افہام و تفہیم اور ڈائیلاگ کے راستے کھولنے چاہئیں۔ اسی طرح حکمران جماعتوں کو بھی معاملہ فہمی سے کام لینا چاہیے اور پی ٹی آئی پر پابندی کیلئے ریفرنس لانے کا ارادہ ترک کر دینا چاہیے کیونکہ ایسی پالیسیوں سے سیاستدانوں کی ہی بَھد ا±ڑتی ہے۔