پاکستان تحریک انصاف کی فائنل کال احتجاج کے بعد سیاسی جماعتوں کی سطح پر بیان بازی ہو رہی ہے۔ یہ بیانات ملکی سیاست کا افسوسناک پہلو ہے۔ سیاست دانوں کے طعنے اور طنزیہ جملوں نے ماحول کو کشیدہ کر رکھا ہے، سیاسی تعلقات میں شدت اور کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ بدقسمتی سے ہم آج تک یہ فیصلہ نہیں کر سکے ہیں کہ ہمیں احتجاج کے پیچھے بھاگنا ہے یا پھر استحکام کی طرف جانا ہے۔ کاش کہ سیاسی قیادت اس بارے قوم کی رہنمائی کرے کہ احتجاج ضروری ہے یا استحکام کی ضرورت زیادہ ہے۔ اگر ہمیں استحکام چاہیے تو کیا یہ مقصد احتجاج کے ساتھ ساتھ حاصل کیا جا سکتا ہے یقینا ایسا نہیں ہے لیکن بدقسمتی سے ہم ابھی تک یہ فیصلہ کرنے میں ناکام ہیں اگر احتجاج کرنا بھی ہے تو اس کا پیمانہ اور طریقہ کیا ہونا چاہیے۔ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ گذشتہ دنوں پشاور سے اسلام آباد تک احتجاج کی وجہ سے دنیا کو مختلف مناظر دیکھنے کو ملے ہیں۔ یقینا یہ اچھے مناظر نہیں تھے دنیا میں ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں اور اس بارے ہمیں کوئی معذرت خواہانہ رویہ اختیار بھی نہیں کرنا چاہیے کیونکہ دنیا کے ہر دوسرے ملک کو سیاسی طور پر ایسی مزاحمت کا سامنا رہتا ہے۔ لیکن جب ہم اندرونی طور پر معاشی و سیاسی عدم استحکام کی بات کرتے ہیں تو پھر یہ پہلو تکلیف دہ ہے کہ ہر سیاسی جماعت ہر وقت حکومتی مخالفت کی وجہ سے کچھ غیر معمولی کام کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہے۔ اگر کوئی بین الاقوامی مسئلہ نہیں ہے، کوئی مذہبی معاملہ نہیں ہے، کوئی قومی مسئلہ نہیں ہے تو پھر کیوں احتجاج کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے۔
اس سے بڑھ کر تکلیف دہ بات یہ ہے کہ سیاسی قیادت مظاہرین کی حمایت کرتی ہے۔ ٹھیک ہے کہ احتجاج بنیادی حق ہے، جمہوریت کا حسن ہے لیکن کیا حسن برقرار رکھنا بھی کسی کی ذمہ داری ہے یا نہیں۔ ملکی معیشت ہچکولے کھا رہی ہو، عام آدمی کی زندگی مشکل ہوتی جا رہی ہو اور سیاسی جماعتیں سڑکوں پر تماشے لگائیں اور ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کہتے ہیں کہ کسی پارٹی کے فیصلے سے غرض نہیں کہ انہوں نے فیصلہ غلط کیا یا صحیح، وہ اپنے فیصلے کے خود ذمہ دار ہیں۔ ایک صوبے سے قافلے آرہے ہیں تو اس وقت راستے دئیے گئے اور پیچھے ہٹ گئے، کہا کہ گولی نہیں چلانا چاہتے، جب ڈی چوک پہنچ گئے تو پھر گولی کیوں چلائی؟ ہر پارٹی کو جلسہ اور مظاہرہ کرنے کا حق حاصل ہے، مجھے بھی اور میرے مخالف کو بھی یہ حق حاصل ہے لیکن ہم اسلام آباد میں حکمرانوں کے پرتشدد رویے کی مذمت کرتے ہیں۔
یہی وہ مسئلہ ہے جس بارے سیاسی قیادت رہنمائی کرنے میں ناکام ہے۔ ہر سیاسی جماعت کو احتجاج کا حق حاصل ہے لیکن کیا غربت کی زندگی گزارنے والے کروڑوں انسانوں، بنیادی تعلیم سے محروم کروڑوں بچوں کا کوئی حق نہیں ہے، کسی بھی سیاسی جماعت کے سیاسی مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے احتجاج کو حق قرار دینا اور اس پر قائم رہنا کیا ملکی ترقی کے راستے میں بڑی رکاوٹ تو نہیں ہے۔ صرف مولانا فضل الرحمن ہی نہیں جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن بھی مظاہرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کر رہے ہیں۔ دیگر سیاسی جماعتوں کے اکابرین بھی حکومت کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ ٹھیک ہے تشدد نہیں ہونا چاہیے لیکن ریاستی اداروں کو بند گلی میں بھیجنا کہاں کی سیاست ہے۔ چونکہ ایسی سیاسی سرگرمیوں کی حمایت کرنے والوں نے مستقبل میں خود سڑکوں پر آنا ہوتا ہے اس لیے کوئی مسئلے کے حل کی طرف نہیں جانا چاہتا۔ پاکستان کے موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے ایسے معاملات میں کوئی قومی پالیسی ہونی چاہیے۔ اسمبلیوں کی موجودگی میں سڑکوں پر دھرنے، احتجاج ملکی ترقی کے راستے میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ یہ کام صرف اور صرف سیاسی قیادت ہی کر سکتی ہے۔ بنیادی طور پر یہ رویہ عدم برداشت کا اظہار ہے کیونکہ جو اپوزیشن میں ہے وہ حکومت کو برداشت نہیں کرتا، ہر حال میں حکومت کا خاتمہ چاہتا ہے، ووٹرز سیاسی شعور اور غیر جانبدارنہ جائزہ لینے کی اہلیت نہیں رکھتے، ووٹرز کارکردگی کے بجائے جذباتی نعروں اور بیانات کو پسند کرتے ہیں۔ یہ ہمارے ووٹرز کی کمزوری ہے۔ سیاسی جماعتوں کے کارکن کسی بھی سیاسی جماعت کے منشور، کارکردگی، منصوبوں یا پالیسیوں کے بجائے ذاتی تعلقات، میل جول اور جذباتی و خاندانی وابستگی کی بنیاد پر ووٹ دیتے ہیں۔ جمہوری نظام کے معاملے میں بھی ہم دنیا سے بہت پیچھے ہیں۔
وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال کا بیان بھی مناسب نہیں ہے۔ احسن اقبال کہتے ہیں بانی پی ٹی آئی کا شوق پورا نہیں ہوا تو وہ ایک اور کال دے کر شوق پورا کر لیں۔ سوشل میڈیا پر ان لوگوں نے پورے بلیو ایریا کو لال سیاہی پھینک کر سرخ کیا ہوا ہے۔ حکومت پر بھی لازم ہے کہ وہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرے، آپ کے پاس طاقت، اقتدار اور اختیار ہے بلیو ایریا کو اگر کوئی سرخ کر کے دکھا رہا ہے تو آپ حقیقت دنیا کے سامنے رکھ دیں، کیمرا لے جائیں وہاں سے لائیو کر دیں، وہاں پریس کانفرنس کریں، میڈیا کو لے کر جائیں جواب دیں، یہ کوئی مشکل کام ہے۔ غیر ضروری بیانات میں الجھے رہنے سے ناصرف قیمتی وقت ضائع ہو رہا ہے بلکہ ترقی بھی رکی ہوئی ہے، ذہنی نشوونما سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہے اور یہ نقصان کسی بھی مالی نقصان سے زیادہ خطرناک اور تباہ کن ہے۔
آخر میں فیض احمد فیض کا کلام
اور کچھ دیر میں ، جب پھر مرے تنہا دل کو
فکر آ لے گی کہ تنہائی کا کیا چارہ کرے
درد آئے گا دبے پاؤں لیے سرخ چراغ
وہ جو اک درد دھڑکتا ہے کہیں دل سے پرے
شعلہء درد جو پہلو میں لپک اٹھے گا
دل کی دیوار پہ ہر نقش دمک اٹھے گا
حلقہء زلف کہیں، گوشہء رخسار کہیں
ہجر کا دشت کہیں، گلشنِ دیدار کہیں
لطف کی بات کہیں، پیار کا اقرار کہیں
دل سے پھر ہوگی مری بات کہ اے دل اے دل
یہ جو محبوب بنا ہے تری تنہائی کا
یہ تو مہماں ہے گھڑی بھر کا، چلا جائے گا
اس سے کب تیری مصیبت کا مداوا ہوگا
مشتعل ہو کے ابھی اٹھیں گے وحشی سائے
یہ چلا جائے گا، رہ جائیں گے باقی سائے
رات بھر جن سے ترا خون خرابا ہوگا
جنگ ٹھہری ہے کوئی کھیل نہیں ہے اے دل
دشمنِ جاں ہیں سبھی، سارے کے سارے قاتل
یہ کڑی رات بھی ، یہ سائے بھی ، تنہائی بھی
درد اور جنگ میں کچھ میل نہیں ہے اے دل
لاؤ سلگاؤ کوئی جوشِ غضب کا انگار
طیش کی آتشِ جرار کہاں ہے لاؤ
وہ دہکتا ہوا گلزار کہاں ہے لاؤ
جس میں گرمی بھی ہے ، حرکت بھی توانائی بھی
ہو نہ ہو اپنے قبیلے کا بھی کوئی لشکر
منتظر ہوگا اندھیرے کی فصیلوں کے اْدھر
ان کو شعلوں کے رجز اپنا پتا تو دیں گے
خیر، ہم تک وہ نہ پہنچیں بھی، صدا تو دیں گے
دور کتنی ہے ابھی صبح، بتا تو دیں گے