اسلام آباد+ راولپنڈی+ پشاور (وقائع نگار+ جنرل رپورٹر+ نیٹ نیوز) انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے تحریک انصاف کے 4185 گرفتار کارکنوں کا 5 سے 7 روزہ جسمانی ریمانڈ دے دیا۔ تمام تھانوں سے مجموعی طور پر 5971 کارکنان انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت میں پیش کئے گئے۔ جج امجد علی شاہ نے سماعت کی۔ تحریک انصاف کے وکلاء کی ٹیم بھی پیش ہوئی۔ عدالت نے 749 گرفتار ملزم 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل بھیج دیے جبکہ ایک خاتون مسماۃ زلیخہ بی بی سمیت 37 کارکنوں کو ڈسچارج کر کے رہا کر دیا گیا۔ جوڈیشل ریمانڈ پر بھیجے گئے ملزموں کو 12 دسمبر، جسمانی ریمانڈ پر بھیجے گئے ملزمان کو 5 دسمبر کو پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔ راولپنڈی ڈویژن کے16 تھانوں میں مجموعی 24 نومبر احتجاج کے 23 مقدمات درج کئے گئے جس میں سب سے زیادہ مقدمات ڈسٹرکٹ اٹک کے تھانوں باہتر، حضرو، حسن ابدال، فتح جنگ اور رنگو میں درج ہوئے۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کے اسلام آباد دھرنے میں بڑی تعداد میں ہلاکتوں کے دعوے کے بعد ترجمان نے 12 افراد کے جاں بحق ہونے کی تصدیق کی ہے۔ تحریک انصاف کے مرکزی ترجمان وقاص اکرم شیخ نے اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کے ساتھ پریس کانفرنس میں کہا کہ پاکستان کے احتجاجوں کی تاریخ میں اس قسم کا رویہ نہیں دیکھا۔ اس وقت قوم اور ہر بچہ دکھ اور تکلیف محسوس کررہا ہے۔ پرامن مظاہرین پر تشدد کیا گیا اور حکومت شواہد چھپانے کی کوشش کررہی ہے۔ ہلاکتیں رپورٹ کرنے والوں کو جیل میں ڈالا گیا۔ بہت سے لوگ تاحال لاپتا ہیں اور ہمیں کچھ پتا نہیں۔ کچھ تعداد پولیس دے رہی ہے جب کہ کچھ گرفتار افراد کا ڈیٹا ہم نے اکٹھا کیا ہے۔ 12 افراد دھرنے میں جاں بحق ہوئے ہیں۔ تعداد زیادہ ہے مگر ہم کنفرم میڈیا کے ساتھ شیئر کررہے ہیں۔ یہ ہمیں میت تک نہیں دے رہے تھے۔ ورثا کو میت 3 دن بعد دی گئی۔ حکومت شواہد اور میتیں چھپانے کی کوشش کررہی ہے مگر یہ چیزیں چھپ نہیں سکتیں۔ حکومت نام اور ثبوت مانگ رہی ہے۔ ہسپتالوں پر دباؤ ڈالا گیا کہ لسٹ میڈیا کے ساتھ شیئر نہ کی جائے۔ نہتے لوگوں پر گولیاں چلانے کی اجازت کون سا قانون دیتا ہے؟۔ کس حکومت نے پرامن شہریوں پر گولیاں چلائی ہیں؟۔ ریاستی مشینری کو اپنے لوگوں کے خلاف کیسے استعمال کیا جا سکتا ہے؟۔ احتجاج اتنا بڑا گناہ تو نہیں ہے۔ اس کا حق تو آئین دیتا ہے۔ ہمارے کارکن آنسو گیس، ربڑ کی گولیوں کے لیے تیار تھے، مگر اصل گولیوں کے لیے نہیں۔ جنگ میں تو فوجیوں کو بھی گولیوں سے جان بچانے کی اجازت ہے۔ ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے، ریاست نے اپنے عوام کے ساتھ کیا کیا؟۔ وزراء کہتے ہیں ایک بھی گولی نہیں چلی تو یہ کس نے چلائی ہیں؟۔ ریاست کے صبر کا پیمانہ کیسے لبریز ہوا؟۔ اس طرح سے تو نفرتیں مزید بڑھیں گی۔ خود وزراء کی باتوں میں بہت تضاد ہے۔ بانی چیئرمین نے ڈی چوک تک جانے کی ہدایت کی تھی۔ یہ دہشت گرد نہیں بلکہ سیاسی جماعت کے کارکن تھے۔ یہ دلیر لوگ تھے، انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ نے بانی چیئرمین کی بیوی کو بچایا ہے تاکہ کل کوئی انہیں پختون ہونے کا طعنہ نہ دے۔ وزیراعلیٰ کی ذمہ داری تھی کہ وہ خاتون کی حفاظت کرے، اس لیے وہاں سے واپس آئے۔ وزیراعلیٰ کی گاڑی پر فائرنگ کی گئی، ان کی گاڑی کو ہِٹ کیا گیا۔ روکنے کی کوشش کی گئی لیکن سی ایم کی گاڑی کے پی کے میں رکی۔ ساڑھے 5ہزار لوگوں کو دھرنے سے قبل اٹھایا گیا۔ ہم تمام گرفتار افراد کو سہولیات دیں گے۔ ہزاروں گاڑیاں اسلام آباد میں اب بھی کھڑی ہیں۔ سرکاری وردی میں گلو بٹ ذہن والے لوگ گاڑیوں کو تباہ کررہے ہیں۔ ریاست کی ذمے داری ہمارا تحفظ کرنا ہے مگر یہ تو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ بلوچستان اسمبلی کی قرارداد ہے کہ پی ٹی آئی پر پابندی عائد کی جائے۔ ہم بھی کے پی اسمبلی میں (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی پر پابندی کی قرارداد لائیں گے۔ کے پی کے میں گورنر راج کی باتیں ہو رہی ہیں۔ پختونخوا کے لوگ ہر سازش کو ناکام بنائیں گے۔ عمر ایوب نے کہا کہ تمام متاثرہ افراد کو قانونی کارروائی کا آغاز کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔ یہ اندھیرے کا دور جلد ختم ہوگا، انہیں اس ظلم کا جواب دینا ہوگا۔ ہم جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ہم وزیراعظم، وزیر داخلہ اور وزیر اطلاعات پر ایف آئی آر درج کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ میں خیبر پختونخوا کے لوگوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جو بانی چیئرمین کی ہدایت پر ڈی چوک پہنچے۔ وزیراعلی کا جو کردار رہا ہے، جس طرح انہوں نے احتجاج کو لیڈ کیا علی امین داد کے مستحق ہیں۔ 8 فروری کو الیکشن نتائج تبدیل کیے گئے۔ موجود حکومت غیر قانونی ہے۔ پاکستان کے سکیورٹی اہلکار جو بارڈرز پر جو لڑرہے ہیں وہ قوم کے ہیرو ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ڈی چوک میں شدید شیلنگ کے ساتھ فائرنگ شروع ہوئی۔ لیڈر شپ قریبی فائرنگ کی وجہ سے نہیں ٹھہری، فائرنگ کے سامنے کون ٹھہر سکتا ہے؟۔ نماز پڑھنے والے کو 35 فٹ کنٹینر سے گرانے والے اہلکاروں کے خلاف کارروائی ہونے چاہیے۔ چیف جسٹس ڈی چوک میں ہونے والے واقعہ کی جوڈیشل انکوائری کرائیں یہ ہمارا مطالبہ ہے۔ یہ حکومت غلط بنیادوں پر بنی ہے، اسے گرایا جانا چاہیے۔ فورسز اس حکومت کو سپورٹ نہ کریں۔ ڈی چوک تک پہنچے کا ٹارگٹ ہم نے پورا کیا اور فائرنگ کے بعد ہم وہاں سے چلے گئے۔ سلمان اکرم راجہ کا استعفی منظور نہیں کیا گیا، وہ کل سیاسی کمیٹی کے اجلاس میں شریک تھے، سلمان اکرم راجہ بطور جی ایس کام کررہے ہیں۔ پنجاب سے لوگ نہیں نکلے کیونکہ وہاں پر لوگوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع ہوا تھا۔ پنجاب سے لوگ نہیں نکلے، ہم خود بھی دیکھ رہے ہیں کہ کیا وجہ تھی۔ مگر ٹرانسپورٹ بند کی گئی، اڈے بند کئے اور لوگوں کے خلاف کارروائی کی گئی۔ ادھر انسداد دہشتگردی کی عدالت نے بانی پی ٹی آئی سے وکلاء کی ملاقات کیلئے جیل سپرنٹنڈنٹ کو ہدایت کر دی جس کے بعد دو وکلاء فیصل چودھری اور فیصل ملک ان سے ملاقات کیلئے پہنچے، تاہم ملاقات نہیں ہو سکی۔گفتگو میں فیصل چودھری نے کہا کہ جیل انتظامیہ نے ایک نوٹیفکیشن دکھایا جس کے مطابق بانی پی ٹی آئی کی کسٹڈی پولیس کے پاس ہے، مقدمہ کے تفتیشی افسر راشد کیانی سے رابطہ کیا، وہ ملاقات سے کترا رہے ہیں، ملزم کا آئینی حق ہے وہ اپنے وکلاء سے مل سکتا ہے، ملزم نے جسمانی ریمانڈ کے خلاف ہائیکورٹ میں نگرانی بھی دائر کرنی ہے۔ جیل انتظامیہ اور پولیس والے پنگ پانگ کھیل رہے ہیں، جیل انتظامیہ معاملہ پر تعاون کو تیار نہیں اور تفتیشی افسر غائب ہوگیا ہے۔ ہم ملاقات نہ کرانے پر آج صبح ہائیکورٹ سے رجوع کریں گے۔ پہلے بھی جیل میں بانی پی ٹی آئی سے غیر انسانی سلوک کیا گیا۔ ہم نے بانی پی ٹی آئی سے مقدمات کے بارے میں رائے لینی ہے تاکہ قانونی کارروائی آگے بڑھائی جاسکے۔ جب بھی کوئی بڑا واقعہ ہوتا تو عمران خان سے ملاقاتوں پر پابندی لگا دی جاتی ہے۔ ان پر دو سو مقدمات میں ایماء کا الزام ہے۔ ریمانڈ میں پولیس نے تفتیش کرنا ہوتی ہے، کسی کو قید تنہائی میں تو نہیں پھینکا جاسکتا؟۔ مجھے اس جسمانی ریمانڈ کی قانونی طور پر سمجھ نہیں آئی کہ کیوں دیا گیا؟۔ ملک میں روزانہ ایک نیا طریقہ واردات ایجاد کیا جا رہا ہے۔ موجودہ حکمران خبردار رہیں یہی طریقہ واردات ان کے خلاف بھی استعمال ہوں گے۔ کسی کو بھی موقع ملا تو یہ اسی طرح ٹریٹ ہوگا اور ان کی چیخیں آسمان تک سنائی دیں گی۔ عمران خان ملک کے سب سے مقبول لیڈر اور سب سے بڑی پارٹی کے سربراہ ہیں۔ عمران خان کے لوگوں کے ساتھ جلیانوالہ باغ کی طرح فائر مارے گئے۔ جیل میں بیٹھے شخص سے اتنا خوف ہے کہ اس تک وکلاء و فیملی کو رسائی نہیں دی جا رہی، مگر ہم آئین اور قانون کے مطابق ہر قدم لیں گے۔اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس ارباب محمد طاہر کی عدالت نے ڈی چوک احتجاج پر پی ٹی آئی رہنماؤں کے خلاف درج مقدمات کے معاملہ میں پی ٹی آئی رہنما شیر افضل مروت کی کیسوں کی تفصیلات فراہمی کی درخواست پر فریقین کو نوٹس جاری کرتے کوئے شیر افضل مروت کو کسی بھی نامعلوم مقدمے میں گرفتاری سے روک دیا۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے پارٹی قیادت کے خلاف درج مقدمات کے معاملہ پر سینئر وکیل سلمان اکرم راجہ کے خلاف وفاق اور پنجاب میں درج مقدمات کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے آئندہ سماعت تک گرفتاری سے روک دیا۔
مزید 4185 کارکنوں کا جسمانی ریمانڈ: دھرنے میں 12 ہلاکتیں ہوئیں، پی ٹی آئی
Nov 30, 2024