رانا فرحان اسلم
پاکستان پیپلز پارٹی ملکی سیاست کے میدان میں تندو تیز حالات و واقعات سے گزر کر پروان چڑھی۔ آمریتوں کے دور میں صبرو ہمت اور استقلال کے ساتھ مقابلہ کرکے آج یہ جماعت اپنی ہم عصر دینی و سیاسی جماعتوں کے ساتھ صلح جوئی سے آگے بڑھتے ہوئے پانچ دہائیوں سے زیادہ کا سفر طے کر چکی ہے۔ تاریخ شاید ہے کہ اس جماعت نے اپنی قیادت کی قربانیوں کی صورت میں قیمت ادا کرکے اس ملک کے عوام کو سیاسی جمہوری عمل کا بنیادی فریق تسلیم کروایا ہے جبکہ آج ملک کی دیگر جماعتوں میں سے کوئی جماعت عوامی حمایت کے بغیر پارلیمانی جمہوری عمل کا تصور بھی نہیںکر سکتی۔ بینظیر بھٹو کے میثاق جمہوریت کے فیصلہ کن اقدام سے لے کر آج تک پی پی پی کو اس کی قیمت بھی ادا کرنا پڑی ہے مگر پھر بھی پاکستان کھپے اور مفاہمت کی سیاست کے لئے اس جماعت کی عوامی جدوجہد آج بھی جاری وساری ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی اور اسکی قیادت ملکی سیاست میںہمیشہ سے اہم رہی ہے ذوالفقار علی بھٹو، بینظیر بھٹو کے بعد آصف علی زرادری اور اب بلاول بھٹو زرداری اور آصفہ بھٹو ملکی پارلیمانی سیاست میں سرگرم عمل ہیںآئین وقانون کی بالادستی اور ملک میں مفاہمت کی سیاست کے فروغ کیلئے گذشتہ چند سالوں میں پیپلزپارٹی اور اسکی قیادت کا کردار انتہائی متاثر کن رہا ہے پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرادری کو اپنی ساسی حریف جماعت مسلم لیگ ن کیساتھ بیٹھنے اور دیگر قوتوں کیساتھ مل کر ملک وقوم کی بہتری کیلئے مثبت سیاست کرنے اور سب کو ساتھ لیکر چلنے پر سیاسی میدان میں'' مفاہمت کے بادشاہ ''کا خطاب بھی دیا گیا جو کہ انکی سیاست کا خاصہ بن چکا ہے دوسری جانب مسلم لیگ ن کے صدر محمد شہباز شریف کی مفاہمتی سیاست بھی دونوں سیاسی جماعتوں کو اس قدر قریب لے آئی کہ دونوں سیاسی جماعتیںایک دوسرے کیساتھ مل کر ملک وقوم کی بہتری آئین کی بالاستی اور جمہوریت کے فروغ کیلئے سرگرم عمل ہیں۔ آصف علی زرادری کی مفاہمتی سیاست نے بالخصوص پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم)کو بنانے اور وفاق میں حکومت تشکیل دینے میں صدر آصف علی زرداری کا کلیدی کردار رہا ہے۔ اسی طرح پی ڈی ایم کی حکومت میں بطور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرادری نے عالمی سطح پر ملک کا تشخص بحال کرنے میں اہم کردارادا کیا ہے جسکا اعتراف پیپلزپارٹی کی ماضی کی حریف جماعت مسلم لیگ ن کی قیادت کیجانب سے بھی کیا گیا۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو عدم اعتماد کے ذریعے آئینی طریقے سے ہٹانے میں بھی پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت نے اہم کردارادا کیا پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرادری اور مسلم لیگ ن کے صدر محمد شہبازشریف نے مل کر ناصرف حکومت بنائی بلکہ ماضی کی دو سیاسی مخالف سیاسی جماعتوں کے قائدین نے عبوری دور کی کابینہ میں ایک ساتھ کام کیا جسکا نتیجہ یہ نکلا کے ملک میں جاری سیاسی ہیجان میں بھی کمی آئی اور پارلیمان کے کردار میں بھی اضافہ ہوا۔
پاکستان تحریک انصاف کے دور اقتدار میں پاکستان کو عالمی سطح پر جس سبکی کا سامنہ کرنا پڑا دوست ممالک کیساتھ تعلقات میں جو سرد مہری آگئی تھی وہ بھی پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹوزرادری نے بطور وزیر خارجہ نا صرف ختم کی بلکہ دوست ممالک کیسا تھ تعلقات کو نئی جہتوں سے متعارف کروایا پیپلزپارٹی کے دور میں غریب عوام کے معیار زندگی اور انکی مالی معانت کیلئے شروع کئے جانیوالے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی بات کی جائے تو وہ بھی پیپلزپارٹی ہی کا ایک کارنامہ اور اسکی پہلی چیئر پرسن بینظیر بھٹو شہید کی دست راست اور پیپلزپارٹی کی متحرک خاتون رہنما فرزانہ راجہ نے اس پروگرام کوبطور بانی چیئر پرسن کامیاب بنانے میں دل وجان سے کردارادا کیا جسے اسوقت عالمی اداروں کیجانب سے بھی خوب سراہا گیا اور آج تک اس پروگرام کی افادیت قائم ودائم ہے جسے مسلم لیگ ن کے دورحکومت میں بدستور جاری ر کھا گیااور آج پیپلزپارٹی کی سینیٹر روبینہ خالد بطور چیئرپرسن اس پروگرام کی نگر انی کررہی ہیں اورملک میں لاکھوں خاندان اس سے مالی معاونت لے رہے ہیں۔
پاکستان پیپلزپارٹی اس وقت وفاقی کابینہ کا اگرچہ حصہ تو نہیں لیکن مسلم لیگ ن کی حکومت کو بھرپور سپورٹ کر رہی ہے بالخصوص اگر بات کیجائے چھبیسویں آئینی ترمیم کی تو پارلیمان سے اسکی منظوری کیلئے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹوزرادری نے بھرپور کردارادا کیا جمعیت علماء اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کو راضی کرنے سے پی ٹی آئی کی قیادت کو مشاورتی عمل میں شامل کرنے تک تمام کریڈٹ پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت کو جاتا ہے اور منظوری کے وقت پیپلزپارٹی کے اراکین نے دونوں ایوانوں میں موجود رہ کر متفقہ طور پر ترمیم کی حمایت کی اوراس کیلئے ووٹ بھی دیا۔ گو پیپلزپارٹی اسوقت صدارت کے منصب پر فائز ہے اور صوبہ سندھ کی حکومت صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخواہ کی گورنر شپ کیساتھ سینیٹ کی چیئرمین شپ اور قومی اسمبلی میں ڈپٹی چیئرمین شپ کیساتھ موجودہ حکومت کی معاونت جاری رکھے ہوئے ہے ۔پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت برملا کہتی نظر آتی ہے کہ پیپلزپارٹی اپنے نظریات کے ساتھ کھڑی ہے اور سویلین بالا دستی کے نظریے پر قائم ہے اسکے علاوہ پیپلزپارٹی کی قیادت بعض معاملات پر موجودہ حکومت کیساتھ اختلافات بھی رکھتی ہے جیسے پیپلزپارٹی قومی اداروں کی نجکاری کیلئے اپنا ایک واضح مؤقف رکھتی اور اسکی مخالفت کرتی ہے ۔جبکہ مسلم لیگ ن کی حکومت نجکاری کی حامی ہے۔ اسی طرح مہنگائی اور صوبوں کے حقوق کے حوالے سے بھی پیپلزپارٹی کھل کر اظہار رائے کرتی ہے اور بعض حکومتی پالیسیوں کی مخالف بھی ہے جو کہ جمہوریت کا حسن بھی ہے ۔ پیپلزپارٹی نے دوٹوک اصولی مؤقف کے ساتھ قومی اداروں کی عزت وتکریم اور ملک میں سیاسی ا نارکی کے سدباب کیلئے ہمیشہ ڈائیلاگ اور مذاکرات کو اولین اہمیت دی ہے ۔پیپلزپارٹی کی قیادت پی ٹی آئی اور عمران خان کے موقف کی مخالف رہی ہے۔ پارٹی کا واضح مؤقف رہا ہے کہ اقتدار اس کی مجبوری نہ تھا لیکن ڈیفالٹ کرتے ہوئے ملک کو بچانا بھی ضروری تھا بحران حکومت کا نہیں ریاست کا بحران تھا اور اسوقت پہلی ترجیح ملک بچانے کی کوشش کی گئی۔ تحریک عدم اعتماد کے بعد حکومت بنانا ایک بہت برا چیلنج تھا جسکے کیلئے مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی نے ریاست کو اہمیت دی اور حکومت بنا کر ملکی مسائل پر قابو پانے کیلئے دن رات ایک کرنا پڑا عمران حکومت نے جس طرح پاکستان کے تعلقات امریکہ چین اور متحدہ عرب امارات سے خراب کیے وہ تعلقات بلاول کی کوششوں سے بتدریج معمول پر آئے اور آج ملک میں نئی حکومت دنیا بھر کے ممالک کیساتھ تعلقات کو نئی جہتوں سے متعارف کروا رہی ہے اور ملک میں سرمایہ کاری کیلئے سازگار ماحول بن رہا ہے۔