بھٹو شہید کا مدتوں سے غربت کے مارے عوام کے لئے ایک عظیم احسان

پاکستان کا نوجوان جاننا چاہتا ہے کہ صحیح کیا ہے غلط کیا ہے؟ وجہ یہ ہے کہ ہمیں تاریخ ہی غلط پڑھائی گئی ہے ' .  30 نومبر 1967 کو شہید ذوالفقار علی بھٹو نے ایک نئی سیاسی پارٹی کو تشکیل دیا جس کا منشور روٹی، کپڑا اور مکان ہے۔ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید پہلے لیڈر تھے جو اپنی دھرتی پر بسنے والوں سے عشق کرتے تھے۔انہوں نے صدیوں سے سیاسی 'معاشی اور معاشرتی استحصال کے شکار عوام کو سوچنے کیلئے شعور' بولنے کیلئے زبان اور عزت سے سر اٹھاکر جینے کا ڈھنگ سکھایا۔

جب قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید نے کہا کہ یہ قدرت کا قانون نہیں ہے کہ غریب ہمیشہ غریب ہی رہے تو ان کے خلاف کفر کے فتوے دیئے گئے۔ شہید بھٹو وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے آمریت اور ظلم کے خلاف آواز بلند کی۔ انہوں نے پاکستان میں بسنے والوں کو ایک قوم بنا دیا، آزاد خود مختار اور با وقار قوم۔ شہید بھٹو کی اہلیہ بیگم نصرت بھٹو نے بھی ان کا ہر لمحہ ساتھ دیا اور صعوبتیں برداشت کیں۔ بیگم نصرت بھٹو نے ضیاء  آمریت کے دور میں ظلم برداشت کئے۔ ظلم کی انتہاء  تو یہ تھی کہ شہید بھٹو کو ایک آخری بار کسی سے ملنے کا موقع بھی نہیں دیا گیا۔اسی جمہوریت کی بحالی کی خاطر انہوں نے اپنے دو جوان بیٹوں کی قربانی دی ۔ شہید بھٹو کے عدالتی قتل کے بعد انکے سب سے چھوٹے بیٹے شہید شاہ نواز بھٹو جو کہ صرف 27 برس کے تھے، ان کو زہر دے کر فرانس میں قتل کر دیا گیا۔ لیکن دشمن کو پھر بھی سکون میں نہ ملا اور 1996 میں انکے بڑے بیٹے شہید میر مرتضٰی کو کراچی میں بے رحمی کے ساتھ قتل کر دیا گیا۔
محترمہ بینظیر بھٹو شہید  قائد عوام شہید کے فلسفے کو آگے لیکر بڑھیں ان کا کہنا یہ تھا کہ میرا دل اس وقت دکھی ہوتا ہے جب میں اپنے ملک کے بچوں کو کچرے کے ڈھیر سے روٹی تلاش کرتے ہوئے دیکھتی ہوں۔ شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے جب اپنے والد  بھٹو شہیدکے قتل کے بعد سیاست میں قدم رکھا تو مخالفین انکے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ۔ ان پر الزامات لگائے گئے، کردار پر باتیں کیں، اور حد تو یہ تھی کہ عدم تحفظ کے شکار کچھ لوگوں نے 1980ء کی دہائی میں انکی جھوٹی تصاویر عوام میں بانٹیں۔ لیکن ان سب کے باوجود شہید محترمہ نے اپنی عوام کا ساتھ نہ چھوڑا۔ ملک میںجنرل پرویز مشرف اور ساتھی  فوجی جرنیلوں کے ہاتھوں  جب  سول حکومت کا خاتمہ کیا گیاتو جنرل ضیاء کی طرح افغان طالبان کا ایشوایک بار پھر زندہ کر دیا گیا۔ جمہوری عمل کی بحالی کیلئے  شہید محترمہ بینظیر بھٹو اپنی عوام کی خاطر اس ظلم کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے مصروف عمل رہیں،جس کے ساتھ ہی  شہید محترمہ کوایک بار پھر جلاوطن کروا دیا گیا۔ آٹھ سال تک شہید محترمہ کو اپنی سر زمین پر قدم نہ رکھنے دیا گیا۔شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے ساتھ ساتھ انکے شوہر صدر آصف علی زرداری نے بھی اس جمہوری جنگ کی خاطر ہر طرح کے ظلم برداشت کئے۔ ان کو بے گناہ قید میں گیارہ سال رکھا گیا اور ان گیارہ سالوں میں ان پر بے انتہاء  ظلم و جبر کیا گیا۔ اس کے باوجود بھی انہوں نے جمہوریت کے حق میں آواز دبنے نہ دی۔  
18 اکتوبر 2007 کو شہید محترمہ بینظیر بھٹو جب اس ملک واپس آئیں تو کراچی میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ ان کی ایک جھلک دیکھنے کو بیتاب تھے۔ ان لوگوں کی زبان پر ایک ہی نعرہ تھا، 'ویلکم ویلکم بینظیر ویلکم۔' لوگوں کے دلوں میں اتنی محبت دیکھ کر دشمنوں سے برداشت نہ ہوا اور شہید محترمہ پر دہشتگرد حملہ کر دیا گیا۔ اس حملے میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کی شہادت ہوئی، نجانے کتنے لوگ زخمی ہوئے۔ اگلے ہی دن شہید محترمہ شہیدوں کے گھر تعزیت کے لئے گئیں اور انکو یقین دلایا کہ پاکستان پیپلز پارٹی ہمیشہ ان کے ساتھ ہے۔ اس دوران شہید محترمہ نے ہر ممکن کوشش کی کہ ملک سے دہشت گردی کا نام و نشان ختم ہو جائے لیکن افسوس 27 دسمبر کی شام شہید محترمہ بے نظیر بھٹو اسی دہشت گردی کا نشانہ بن گئیں اور انہیں سرِ عام قتل کر دیا گیا۔ تاریخ اس بات کی گواہ رہے گی کہ ایک عورت سے دشمنوں کو اتنا خطرہ تھا کہ اس پر طرح طرح کے الزامات لگائے گئے، قید میں رکھا گیا ہر طرح کا ظلم کیا گیا اور آخر کار قتل ہی  کر دیا گیا۔ یقیناً وہ عورت ایک بہادر، ملک سے محبت کرنے والی تھی جس نے اس ملک کے لئے اپنے والد اور دو بھائی قربان کر دیے۔
آج جب میں معاشرے کو تباہ ہوتے ہوئے دیکھتی ہوں تو ایک معجزے کیلئے دعا مانگتی ہوں کہ ہمارہ پیارا پاکستان اس راستے پر گامزن ہو جہاں امن ہو ' جہاں نفرت اور تعصب نہ ہو ' 
ایسے خواب کی تکمیل جناب بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں نظر آتی ہے۔ کچھ سال قبل بارش اور سیلاب کی وجہ سے ہونے والی تباہی کو دیکھتے ہوئے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر دل گواہی دینے لگا تھا ملک کو ایسے ہی لیڈر کی ضرورت ہے۔ جس طرح ان کے نانا شہید ذوالفقار علی بھٹو، ان کی والدہ شہید محترمہ بینظیر بھٹو، اور انکے والد صاحب صدر زرداری نے مخالفین کی نفرت اور تنقید برداشت کی اسی طرح چیئرمین  بلاول بھی اپنے مخالفین کی تنقید بہادری سے برداشت کرتے چلے آ رہے ہیں۔ چیئرمین پیپلزپارٹی  بلاول بھٹو زرداری کو معلوم ہے ان کے نانا قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو اور عظیم والدہ کے خواب کیا تھے ' انہیں معلوم ہے کہ صدر آصف علی زرداری نے گوادر سنگاپور سے واپس لیکر چین کو کیوں دیا اور قومی راہداری کا نقشہ کس مستقبل کی تعبیر کیلئے بنایا گیا تھا۔اپنی خدمات کی وجہ سے آج 45 سال بعد بھی ہر شخص شہید بھٹو کو یاد کرتا ہے اور آج بھی اس نام کی خاطر مر مٹنے کو تیار ہے ۔آج بھی کسی کو اس ظالم کی فکر نہیں جس نے اس خاندان کو توڑنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ شہید محترمہ بینظیر بھٹو کو قتل ہوئے 17 سال گزر چکے ہیں اور آج بھی دنیا شہید محترمہ کو یاد کرتی ہے لیکن کوئی بھی اس یزید کا نام لینا بھی پسند نہیں کرتا جس نے شہید محترمہ کو قتل کروایا۔  آج بھی صدر آصف علی زرداری ، چیئر مین بلاول بھٹو زرداری، اور بی بی آصفہ بھٹو زرداری ان کے خواب ایک جمہوری پاکستان کو پوار کرنے کی کوشش میں بھر پور کوشش کر رہے ہیں اورہم  جلد اس خواب کو حقیقت بنتا ہوا دیکھیں گے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...