پاکستان پیلز پارٹی کاآج 57واں یو متاسیس منایا جائے

پاکستان پیپلز پارٹی کو وجود میں آئے اب 57 سال کا عرصہ گزر گیا ہے ، پاکستان کی عمر کے حساب سے یہ کافی طویل عرصہ ہے تاہم دنیا میں سیاسی جماعتوں کے وجود اور ان کے تسلسل کے حوالے سے یہ کوئی اتنی بڑی مدت نہیں ہے پاکستان میں ابھی متعدد دوسری جماعتیں ایسی ہیں جن کی تشکیل کو اس سے  بھی زیادہ عرصہ گزر چکا ہے،پاکستان پیپلز پارٹی کا قیام ایک ایسے وقت میں ہوا تھا،جب دنیا بھر میں استعماریت ،سرمایہ داری،توسیع پسندی،اور عوام کی خواہش کے خلاف کام کرنے والی حکومتوں کے خلاف دنیا بھر کی اقوام میں ایک لہر موجود تھی،اس کے ساتھ ساتھ مغرب کے استعمار نے افریقہ ، ایشیا میں اپنی نو آبادیاں قائم کر رکھی تھی اور ان علاقوں میں نو آبادیاتی نظام کے خلاف تحریک عروج پر تھی۔اس زمانے کے حالات کو دیکھا جائے تو پاکستان کے اندر ایک آمریت تھی ، اور  اس کے قیام کو دس سال سے زیادہ  کا عرصہ گزر چکا تھا،پاکستان جو اس وقت دو حصوں پر مشتمل تھا مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان،ان دونوں حصوں میں محرومیت کی وجوہات الگ الگ تھی تاہم جو وجوہات مشترک تھیں ان میں غربت، انسانی حقوق کا ناپید ہو جانا،اور ملک کے اہم ترین فیصلوں کا انحصار ایک فرد واحد کی صوابدید کے ساتھ ساتھ ملک میں جمہوری اقدار کا فقدان تھا۔ ملک کے دونوں حصوں کے درمیان تفاوت کی سرگوشیاں اب برسر عام الزامات میں بدل چکی تھیں،ذوالفقار علی بھٹو شہید جو حکومت میں رہ کر اس کے طرز حکمرانی کوجان چکے تھے،ایک ذہین سیاستدان ہونے کے ناطے عوام کے نبض شناس بھی تھے وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ ملک کے اندر ایک نئی سیاسی جماعت کی ضرورت ہے جو نئے نعروں اور نئے پروگرام کی بنیاد پر عوام میں پذیرائی حاصل کر سکتی ہے،ذوالفقار علی بھٹو شہید  عوامی  محسوسات  اور بے چینی کو بخوبی سمجھ رہے تھے ۔ملک کی دولت چند ہاتھوں میں مرتکز ہوتی چلی جا رہی تھی  اور عوام کی اکثریت خط غربت سے نیچے تھی ،،بھٹو شہید بین الاقوامی جاری رجحانات  کو  بھی دیکھ رہے تھے جن کا ذکر ابتدا میں کیا گیا ہے،اس زمانے کی  ملکی سیاسی جماعتیں اپنے وقار کو کھو چکی تھی،کچھ سیاسی جماعتیں کام کر رہی تھیں تاہم ان کے پاس کوئی پروگرام نہیں تھا ان کی سیاست صرف اور صرف الزام تراشی کی سیاست تھی ،عوام میں جانے کی بجائے ان کا زیادہ تر دارومدار اسٹیبلشمنٹ کے سہارے پر تھا،اسی پس منظر کو سمجھتے ہوئے لاہور میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد30 نومبر1967  کورکھی گئی۔ مکمل سیاسی و سماجی پروگرام کے  ساتھ بننے والی  اس پارٹی کو وہ چار نعرے دیے  گئے جو آج بھی پارٹی کے پروگرام میں نمایاں اہمیت رکھتے ہیں۔یعنی جمہوریت ہماری سیاست ہے،طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں،سوشل ازم ہماری معیشت ہے اور اسلام ہمارا دین ہے ، یہ وہ چار  بنیادی نعرے تھے جو  پارٹی کی اساس بنے۔ اگر  ان نعروں کو دیکھا جائے تو یہ اس دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ تھے،چونکہ ملک جس کو قیام کے بعد سے ہی  سماجی اصلاحات کی ضرورت تھی،اس جانب کوئی خاص پیش رفت نہ ہو سکی،آمریت  اور  بنیادی جمہوریت کے نام پر ہونے والے تجربات نے اس ملک کے مسائل کو ختم کرنے کی بجائے مزید پیچیدہ کر دیا تھا۔
 ملک میں نئی جماعت کے قیام کے ساتھ ملکیت اورسیاست میںاجارہ داری کلچر کے خلاف  پاکستان پیپلز پارٹی کو عوام نے دیوانہ وار مقبولیت بخشی،ذوالفقار علی بھٹو شہید ملک کے عوام کی آنکھوں کا تارا بن گئے،اور ان کا پہلا عوامی امتحان 70 کے انتخابات میں ہوا،جس میں وہ شاندار اندازمیں کامیاب ہوئے ۔ اس وقت 1970 یا 1971 میں پیش آنے والے واقعات موضوع نہیں ہیں، تاہم اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ جنہوں نے 1962 کا آئین بنایا تھا اگر وہ اسی میں درج انتقال اقتدار کے اصول پر عمل کرتے تو شاید آئندہ  پیش آنے والے بہت سے واقعات نہ ہوتے،ایک نئی آمریت  نے ملک کے دونوں حصوں کے درمیان سلگتی ہوئی چنگاری کو مہمیز کر دیا،1971 کے بعد بھٹو شہید کے اس نئے  پاکستان نے اب نئی صدی کا ایک چوتھائی طے کر لیا ہے،پاکستان پیپلز پارٹی زندہ ہے،اور اب اس کی قیادت نوجوان رہنما بلاول بھٹو زرداری کے ہاتھ میںہے،پاکستان پیپلز پارٹی کا یہ کارنامہ تھا کہ اس نے ٹوٹے ہوئے پاکستان کو ایک بار پھر سنبھالا دیا،اسلام آباد کی سڑکوں پر گھومتے چلے جائیں،آپ کو جا بجا ان آئینی قانونی جمہوری اداروں کے نشانات نظر آئیں گے جن کے دفاتر اب شاندار عمارتوں میں قائم ہیں،پاکستان کی تاریخ جب بھی لکھی جائے گی تو اس میں لکھا جائے گا کہ اس ملک کا متفقہ ٓائین پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کے بانی قائد نے 1973 میں منظور کروایا،یہ ادارے ،ان کا انفراسٹرکچر یہ سب 1973 کے متفقہ آئین کی پیداوار ہیں،یہ متفقہ آئین اتنا سخت جان ثابت ہوا کہ اس نے 73 کے بعد لگنے والے دو مارشل لاؤں کا سامنا کیا،ان دو آمریتوں کو قائم کرنے والے وقت کی  گرد میں کھو چکے  ہیں ،ذوالفقار علی بھٹو شہید جنہیں  ناکردہ جرم میں پھانسی دی  آج  بھی یاد کئے  جاتے ہیں اور ان کی پارٹی بھی موجود ہے ،کچھ ماہ قبل سپریم کورٹ آف پاکستان نے فیصلہ دے کر اتنی غلطی کا اعتراف کیا ہے،ذوالفقار علی بھٹو شہید کی رخصتی کے بعد پیپلز پارٹی تین بار برسر اقتدار آئی،دو بار محترمہ بے نظیر  بھٹو شہید  الیکشن جیت کر پاکستان پیپلز  پارٹی کی حکومت قائم کی،جبکہ 2008 میں بننے والی پیپلز پارٹی کی حکومت بھی محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی کی محنتوں اور شہادت کا ثمر تھی ، محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی شہادت ایک بڑا سانحہ تھی اور پاکستان  پیپلز پارٹی نے  اس سے کوئی سیاسی فائدہ اٹھانے کی قطعی کوشش نہیں کی اور صدر آصف علی زرداری اور پاکستان پیپلز پارٹی کے  چیئرمین بلال بھٹو زرداری نے بھرے جلسہ میں پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کر مہر  تصدیق ثبت کر دی تھی کہ پیپلز پارٹی پاکستان کے لیے ہے،آج جب کہ بہت سا وقت آگے بڑھ چکا ہے اور 2007 کے بعد بھی بہت سے واقعات ملک کے اندر ہوئے ہیں جن میں پارٹی کا رول نظر آتا ہے صدر آصف علی زرداری کی قیادت میں 1973 کے آئین کی اصل صورت کو بحال کرنا شامل ہے، اسی طرح این ایف سی ایوارڈ کا جاری ہونا پیپلز پارٹی کا ایک بڑا کارنامہ ہے،یہ بات ریکارڈ کی بنیاد پر کہی جا سکتی ہے کہ 2007 سے 2013 کے درمیان ملک کے اندر وفاق اور سندھ میں بھی اس پارٹی کی حکومت رہی اور اس پورے عرصے میں اس کو ایک میڈیا وار کا نشانہ بنایا گیا ، تاہم  پی پی پی  نے بالغ  نظر سیاسی جماعت کے طور پر تحمل اور سیاسی سوچ کا مظاہرہ کیا اور ہمیشہ ٹیبل پر بات چیت کو ترجیح قرار دیا، یہ پی پی پی کی سیاسی سوچ تھی جس کے ذریعے اپنی مخالف سیاسی جماعتوں کو نا صرف میثاق جمہوریت پر اکٹھا کیا بلکہ ان جماعتوں کو 2007 کے الیکشن میں حصہ لینے پر آمادہ بھی کیا یہ سیاسی فیصلہ  بعد ازاں  ایک آمر کو رخصت کرنے کا باعث بنا ،پاکستان پیپلز پارٹی کو وہ جماعت تھی جس نے  پانامہ سکینڈل سے اٹھنے والی لہروں کے لیے پارلیمانی کمیشن بنانے کی  بات کی،ایسا نہ ہوا اور معاملہ عدلیہ  میں چلا گیا اور جس طرح اس کا فیصلہ ہوا تھا آج اس کی حقیقت بھی سامنے ا ٓچکی ہے،اب  آصف علی زردی کے دوسری بار صدر بن چکے ہیں اور پارٹی کی قیادت  بلاول بھٹو زرداری کر رہے ہیں اور ان کی بہن آصفہ  زرداری ان کی مددگار بھی ہیں،2018 کے الیکشن کے مقابلہ میں 2024 کے الیکشن میں پارٹی نے بہتر کارکردگی دکھائی اور منتخب ایوانوں میں اپنی عددی حیثیت کو بڑھایا ہے۔ میثاق جمہوریت کے تحت26ویں ترمیم کو منظور کروایا اور آئینی بنچز بنوا دئے ،تا ہم الیکشن کے بعد کی سیاست کے حوالے سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی کچھ سیاسی امور میں کنفیوژن کا شکار ہے،پارٹی کا نظریہ جن چیزوں کا تقاضا کرتا ہے شاید پارٹی اس کے برعکس کرنے پر مجبور ہو رہی ہے

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...