ایوانِ وقت میں قاضی حسین احمد کا اظہار خیالات

جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد نے 27اکتوبر2010ءکو ایوان نوائے وقت میں انگریزی قومی اخبار ”دی نیشن“ اور ”وقت نیوز“ کے اشتراک سے منعقدہ ”میٹ دی پریس“ ٹائپ تقریب میں تقریباً ایک گھنٹے تک پاکستان اور امریکہ کے سٹریٹیجک ڈائیلاگ کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا اور اپنے سیاسی فکر و تدبر اور تجزیاتی دانش کے دائرے میں واضح کرنے کی کوشش کی کہ ان مذاکرات کا موجودہ صورت حال پر کیا تاثر مرتسم ہو رہا ہے، اس تقریب میں قاضی حسین احمد کے ارادت کیش اور عقیدت گزاروں کے علاوہ جماعت اسلامی لاہور کے امیر یعنی امیر العظیم اور دیگر کارکن بھی بڑی تعدد میں موجود تھے۔ ابتداً ایوان وقت کے انچارچ خواجہ فرخ سعید نے یوں تو فرمایا کہ اس تقریب کے مہمان خصوصی کسی تعارف کے محتاج نہیں تھے مگر ساتھ ہی وہ بھی فرما گئے کہ قاضی حسین احمد دو مرتبہ سینٹ کے ممبر اور قومی اسمبلی کے رکن بھی رہے ہیں اور چار مرتبہ جماعت اسلامی کے امیر منتخب ہوئے اور اس وقت وہ پاکستان کے سیاسی افق پر ایک ایسی غیر متنازعہ شخصیت ہیں جس کا احترام ہر سیاست دان کر رہا ہے اور اپنی اس اہمیت کے پیش نظر وہ مختلف الخیال سیاسی محاذوں کو ہم آہنگ و متحد کر دینے کا محور بھی بنے رہتے ہی چنانچہ اس تقریب میں قاضی حسین احمد نے واشگاف الفاظ میں فرمایا کہ پاکستان کے حکمرانوں کو جہاں اتنی دانش کا ثبوت دینا چاہئے کہ وہ دنیا کے ہر ملک کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا سکیں اور برابری کی بنیاد اور مساوی سطح پر اپنے قومی مفادات کو ملحوظ و محفوظ رکھتے ہوئے دوستانہ تعلقات استوار کر سکیں اور ان کو فروغ پذیر و مستحکم و پائیدار رکھ سکیں۔ یوں اپنے قومی مفادات اور ملّی مصالح کو نظر انداز کرکے تقلید کو رانہ کے انداز میں امریکی پالیسی کی تائیدو حمایت کرتے ہوئے ایک غلامانہ روش سے بھی گریز کرنا ہو گا۔ قاضی حسین احمد آج بھی سفید شلوار قمیض اور کالی جیکٹ اور خوبصورت ٹوپی میں ملبوس تھے اور ان کی سرخ و سپید شخصی رنگت پر اجلی ریش مبارک گلشنِ لالہ و گل میں چنبیلی کے کھل جانے کا منظر پیش کر رہی تھی، انہوں نے قطعاً غیر جذباتی انداز میں اظہار خیالات کے لئے ایک دھیما لہجہ اختیار کیا اور مصور پاکستان حضرت علامہ اقبال کے فارسی اشعار سے اپنے بیان کو مزین کرتے چلے جانے کا سلسلہ بھی جاری رکھا پھر اپنی تقریر مکمل کرنے کے بعد سوال و جواب کے مرحلے میں اگر کسی نے کوئی سوال پوچھا تو اس کا بھی نہایت تحمل سے مدلل انداز میں جواب دیتے رہے۔ انہوں نے اپنے تجزیاتی لیکچر میں پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے دورہ امریکہ سے لے کر اب تک پاکستان اور امریکہ کے مابین تعلقات کی استواری، پاکستان کی طرف سے ان تعلقات میں غیر دانشمندانہ حد تک کوششیں پائیداری اور امریکہ کی طرف سے عیارانہ حد تک طرز ناپائیداری پر بھی روشنی ڈالی اور پاکستان کے حکمرانوں کو جھنجھوڑا کہ وہ پاکستان کے حکمران کے طور پر امریکی دھن پر رقصاں رہنے کے بجائے نہایت قابل اعتماد قومی رہنماﺅں کے طور پر پاکستان کے قومی و ملّی مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے کوئی فیصلہ کن اقدام کیا کریں۔ قاضی صاحب نے سوال و جواب کے مرحلے میں وہ بھی فرمایا کہ اس وقت دولت اور صلاحیت و مہارت پاکستان سے باہر جا رہی ہے کیونکہ پاکستان میں حکمرانوں نے اتنے اعلیٰ حالات نہیں رہنے دیئے کہ پاکستان اپنے عالی دماع لوگوں کی صلاحیتوں سے استفادہ کر سکے مگر انہیں اس دولت و مہارت کو واپس بھی لایا جا سکتا ہے بشرطیکہ رائے عامہ میں وہ بیداری پیدا کر دی جائے جو اپنے اور بیگانے میں امتیاز کر سکے، اس وقت بھکاریوں کا سا انداز اختیار کر لیا گیا ہے۔ حالانکہ بھیک ماننے والے نہ تو انفرادی سطح پر ترقی کر سکتے ہیں اور نہ ہی قومی سطح پر ترقی و تعمیر کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن