صدر گرامی قدر نے ارکان کو ”ترقیاتی“ کام مکمل کرنے کی وارننگ دے دی ہے۔ اور ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ فنڈز فلاحی کاموں میں ہی لگائیں۔ یہ ہدایت نامہ نورنامہ ہے یا جنگ نامہ‘ یہ تو اس کو بین السطور پڑھ کر ہی اندازہ ہو سکتا مگر قوم کو یہ پانچ برس جن کی تکمیل میں ایک ماہ 20 دن رہ گئے ہیں‘ کس بھا¶ پڑے اس کا بخوبی اندازہ ہو چکا ہے‘ اب وہ فیصلہ کرنے میں محتاط رہیں گے اور اپنی مزید ”فلاح و بہبود“ کو جاری نہیں رکھیں گے‘ ان پچاس دنوں میں قوم کی زنبیل میں اگر کچھ بچا ہے تو وہ بھی ان خواتین و حضرات کی بہبود کی نذر ہو جائے گا۔ جنہوں نے شروع دن سے اس کی تکمیل کی نذر مانی تھی‘ نگران سیٹ اپ آئے گا‘ مگر کہاں سے اور کس طرح سے؟ یہ اپنی جگہ ایک سوال ہے۔ البتہ ایک تسلی ضرور ہے کہ فخر الدین ابراہیم جی اپنی سی کرینگے اور ان کی دیانت امانت ضرور رنگ لائے گی‘ آنے والی حکومت کیسی ہو گی اس کا فیصلہ بھی عوام نے کرنا ہے‘ بشرطیکہ وہ اس مرتبہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں ووٹ ڈالنے کے لئے نکلیں اور کوئی ایسی حکومت بنا ڈالیں جو کاک ٹیل نہ ہو‘ یعنی اس کی کوئی ٹیل نہ ہو‘ وہ خود اپنی ذات میں مکمل ہو اور ایک رفاہی فلاحی ریاست بنانے کے ایجنڈے کو عملی جامہ پہنانے کی صلاحیت رکھتی ہو‘ ہمارے پاس سیاسی جماعتوں کا جو حاضر سٹاک ہے‘ ان میں اکثر تو ”دوندے“ ہےں اس لئے قربانی جائز نہ ہو گی۔ اب تک تو قربانی لینے والے برسراقتدار رہے‘ لیکن جواب آئینگے انہیں قربانی دینا ہو گی‘ مگر اس کی بھی کوئی مصدقہ شہادت پیش نہیں کی جا سکتی۔ اب بھی وقت ہے کہ لیگیں یکجا ہو جائیں اور قائداعظم کی بنائی ہوئی ایک طاقتور مسلم لیگ قائم کر دیں‘ اگر یہ نکتہ لیگی لیڈران کی سمجھ میں آگیا تو بلاشبہ اس ملک کا سیاسی قبلہ درست ہو جائے گا۔ اور جن کا کوئی قبلہ ہی نہیں وہ خود اپنی طرف منہ کرکے اپنی ہی نماز پڑھ کر خود ہی کلمہ شہادت پڑھ لیں گے۔ آج بھی اگر بانی پاکستان کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے اور ملک کے وسیع تر مفاد میں بڑی مسلم لیگ دوسری لیگوں کو سینے سے لگانے کے لئے تیار ہو جائے اور انانیت کے فریب سے نکل آئے تو اسے نہ صرف کلین سویپ مل سکتا ہے‘ بلکہ حکومت بنانے کے لئے مخمل میں ٹاٹ کے پیوند بھی لگانے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ صدر صاحب اپنے اتحادیوں کو دھڑا دھڑ فون کر رہے ہیں‘ پیار کی پینگیں بڑھائی جا رہی ہیں‘ اگر خدانخواستہ یہ فون کالیں رنگ لے آئیں تو بعید نہیں کہ تھوکا ہوا چاٹنا پڑ جائے‘ اور کراچی و بلوچستان میں یہ موجودہ رنگ اور بھی چوکھا ہو گا اور اس میں مزید بھنگ کی آمیزش بھی ہو جائے گی۔ امریکہ کے پا¶ں اور جمیں گے‘ اور وہ کوئی ایسا کارنامہ ضرور پاکستان کے خلاف انجام دے سکے گا جس کو امریکی انتخابی مباحثوں میں ہدف کامیابی ٹھہرایا گیا ہے‘ قوم اپنے لئے کیا چنتی ہے اور لیڈران صاحبان ان کے سامنے کیا رکھتے ہیں اس کی خبر ہے بھی اور نہیں بھی، اگر قوم کو یہ موقع نہ دیا گیا کہ وہ اپنی پسند اور افادیت کی حامل پارٹی کا انتخاب کر سکے تو ملک میں بہت بڑا انتخابی خلا پیدا ہو سکتا ہے۔ مسلم لیگ ن کی قیادت کو کچھ کرنا ہو گا کہ اپنوں کو تو منا لے ساتھ ملا لے، یہ بھی بڑا غضب ہے کہ سب کی راہیں امریکہ کو جاتی ہیں، امریکہ ہی کی غلامی کرنا ہے تو کم از کم اُس سے کہیں بھارت سے ہماری شہ رگ تو واگذار کرا دے، مگر تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارا گلہ دبانے میں امریکہ نے اب تک بھارت کے دست استبداد کو مضبوط کیا، اور اُس کے کشمیر میں ظلم و ستم کو دہشت گردی قرار نہیں دیا، اقوام متحدہ کو بھی روک رکھا ہے کہ اپنی منظور شد قراردادوں پر عملدرآمد نہ کرائے، یہ ہے فرنٹ لائن اتحادی سے وہ پیار جس کی تمام مذلتیں پاکستانی قوم اُٹھا رہی ہے اور یہاں کے سیاسی لیڈرز اور حکمران اپنے اپنے ذاتی مفاد کے ایجنڈے مکمل کر رہے ہیں، اب ان پچاس دنوں کے بعد یہاں چڑیا کو چگنے کے لئے دانہ بھی نہ ملے گا۔ کیونکہ آواز آئی ہے کہ لوٹ مار کی لے تیز کرو، بعد میں کوئی یہ نہ کہے کہ حسرت ہی رہ گئی، مگر حسرت کہاں ہوس ہے جس کا آخری سرا ملتا ہی نہیں، کالاباغ ڈیم کی تعمیر کو قوم ایک شرط بنا لے، تو بھی کام بن سکتا ہے، کیونکہ کتنی حکومتیں آئیں گئیں کسی ایک نے کالاباغ ڈیم کو بننے نہ دیا اور اُسے اپنی گھریلو سیاست کی نذر کر دیا۔ قومی مفاد کے ایک ناگزیر تقاضے کو سیاست کی بھینٹ چڑھا دینا اور پھر بھی قوم سے ووٹ طلب کرنا آخر کس منہ سے، قوم اب پہلے سے کہیں زیادہ ہوشیار ہے، وہ برادری ازم دباﺅ لالچ کی خاطر اپنی تقدیر کو داﺅ پر نہیں لگائے گی، اس میں شک نہیں کہ ووٹرز کے لئے صحیح امیدوار کا انتخاب مشکل بنا دیا گیا ہے، کہ حمام ایک ہے، تاہم اس اندھیرے میں بھی لیگی اتحاد بہت بڑا کردار ادا کر سکتا ہے، وگرنہ یہ انتخابات طوائف الملوکی کا شکار ہو سکتے ہیں، یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہو گی کہ ووٹر کے سامنے کوئی اہل امیدوار ہی نہ ہو، باقی رہی ہمارے ہاں روایت کی بات تو وہ بہرصورت چلے گی، کیونکہ جاگیردارانہ سسٹم میں ہماری اکثریتی آبادی کی گذر بسر ہو رہی ہے، اس لئے ہر طرف سے اُن ووٹروں کی ٹرالیاں لائی جائیں گی جو کسی جاگیردار کی رعیت ہیں، اب اگرچہ دیہات میں بھی کچھ تبدیلی آئی ہے، مگر زور آور اور دولت مند خانوادوں کی راجدھانیاں قائم ہیں، ہمارا میڈیا اس سلسلے میں ووٹ کی قدر و قیمت سے جانکاری دے، لوگوں کو بالغ نظر بنائے، تاکہ پھر سے وہی گوشتند سامنے نہ آجائیں جو اس قوم کو چارہ سمجھ کر کھا گئے ہیں۔