ہماری قومی زندگی میں ایک معمول سا بن گیا ہے کہ جسکا جو جی چاہتا ہے وہ حقائق کا لیبل لگا کر کوئی دعویٰ کردیتا ہے اور پھر دعویے کی حقانیت کےلئے ایسے ادھورے سچ یا خود ساختہ حقائق یا حالات و واقعات اور معاملات و مسائل کا اپنی پسند کا رخ پیش کرتا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے اور آدمی سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ یہ کیسا سچ اور کیسے حقائق ہمارے کانوں میں انڈیلے جا رہے ہیں۔ اور کیسے پروپیگنڈے کے زور پر تسلیم شدہ حقائق کو مسخ کرنے کی کوششں ہورہی ہیں۔
مجھے لکھتے ہوے ڈر لگتا ہے کہ اس سے کئی محترم مہربانوں کی جبینوں پر شکنیں ابھرنے کا اندیشہ ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ جہاں ہمارے سیاسی قائدین اور حکومتی عمائدین اپنی سیاسی مجبوریوں اور حکومتی مصلحتوں کی بنا پر مختلف معاملات و مسائل کے بارے میں اپنے موقف میں آئے روز تبدیلیاں لاتے رہتے ہیں اور بعض اوقات حقائق کو مسخ کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے ہیں وہاں ہمارے صاحبان دانش و بصیرت اور شہسواران قلم و قرطاس جن میں الیکٹرانک میڈیا کے بعض اینکر پرسنز اور پرنٹ میڈیا کے بعض نامی گرامی قلم کار اور کالم نگار بھی شامل ہیں۔ اپنی مطلب براری اور مفاد پرستی کے لئے ادھورے سچ بولنے اور لکھنے اور معاملات و مسائل کا ایک ہی رخ سامنے لانے سے گریز نہیں کرتے ہیں۔ اس طرح وہ اپنے” محسنوں “اور ”مہربانوں “ کا حق نمک تو ادا کردیتے ہیں لیکن اپنے منصب سے انصاف نہیں کرتے اور انکے اس انداز فکر عمل کا نتیجہ ہے کہ پوری قوم بالخصوص نوجوان نسل میں ایک طرح کے تضادات، کنفیوژن ، تنگ نظری ، انتہا پسندی اور غیر سنجیدگی کے رجحانات جڑیں پکڑ چکے ہیں اور وہ معاملات و مسائل اور حالات و واقعات کو اپنی پسند اور نا پسند کی نگاہوں سے دیکھنے لگی ہے اور جہاں کہیں کوئی بات یا معاملہ ان کی پسند یا توقعات کے برخلاف سامنے آتا ہے تو وہ اس پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے قلمکاروں اور تجزیہ نگاروں کو یہ گلے شکوے کرنے پڑ رہے ہیں کہ اگر ہم کسی اہم فرد یا قومی رہنما کے بارے میں ایسا تبصرہ یا تجزیہ کرتے ہیں جو اگرچہ حقائق پر مبنی ہوتا ہے لیکن اس شخصیت کے چاہنے والوں کی امیدوں کے برعکس ہوتا ہے تو اس شخصیت کے چاہنے والے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہیں اور بعض اوقات مغلظات سے بھر پور ایس ایم ایس کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے ۔
راقم کو اپنی کم مائیگی کا احساس ہے لیکن راقم سمجھتا ہے کہ من پسند حقائق کے پرچارک کے اندا زفکر و نظر کی حوصلہ شکنی ہی نہیں ہونی چاہئے بلکہ اس انداز فکر و عمل پر کاربند خواتین و حضرات کو خواہ ان کا مقام کتنا ہی بلند کیو نہ ہو اور انکا تعلق قومی زندگی کے کسی بھی شعبے سے کیوں نہ ہو ضرور میڈیا پر بین کیا جانا چاہئے۔ یہ معمولی بات نہیں کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسی شخصیت جنہیں قوم ایک زمانے میں پوجتی رہی ہے جنہیں آج بھی محسن پاکستان کا درجہ حاصل ہے راقم کو خود بھی ان سے اور کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز سے رومانس کی حد تک لگاﺅ رہا ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب آئے روز ایسی لا یعنی باتیں کرتے رہتے ہیں اور اپنے موقف میں نت نئی تبدیلیاں لاتے رہتے ہیں اور تسلیم شدہ حقائق کو رد کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ اس کو دیکھ کر سر پیٹ لینے کو جی چاہتا ہے۔ان دنوں ملالہ یوسف زئی کا معاملا بہت اٹھا ہوا ہے ۔ کیا سینے پر ہاتھ رکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ میڈیا نے اس کے بارے میں توازن و اعتدال کو قائم رکھا ہے قطعاً نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ میڈیا کے اس یکطرفہ اور غیر سنجیدہ کردار کی وجہ سے انتہا پسندی اور میں نہ مانوں کے رویوں کو مزید تقویت ملی ہے۔
یہ کوئی خود نمائی نہیں لیکن حقیقت ہے کہ راقم عرصہ دراز سے اردو کے بڑے بڑے کالم نگاروں اور قلمکاروں کی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریریں اور کالم پڑھتا چلا آرہا ہے ۔ اس طرح اسے ان محترم قلمکاروں کے انداز فکر و نظر اور سوچ کے زاویوں سے ایک عرصے سے آگاہی حاصل ہے۔ یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے کہ ان میں سے بعض بڑے ناموں کے مالک قلمکاروں کے بارے میں یہ گمان گزرے کہ وہ اپنی مطلب براری کے لئے اپنی تحریروں اور تجزیوں میں حالات وواقعات کو اپنے مخصوص رنگ میں پیش کرتے ہیں یا بعض سیاسی جماعتوں اور سیاسی شخصیات کی ترجمانی کے فرائض سرانجام دیتے ہیں ۔ یہاں میں دو بڑے اور نامی گرامی کالم نگاروں کی طرف اشارہ کروں گا ان میں سے ایک صاحب عرصہ دراز سے صاحب طرز نثر نگار ہونے کا زعم پالے ہوئے ہیں ۔ اب نخوت اور تکبر کا پیکر بنے ”کپتان کا کالم نگار“کہلانا پسند کرتے ہیں۔ ان کی ہر تحریر عمران خان کی مدح سرائی اور میاں نواز شریف اور انکی جماعت مسلم لیگ ن کی ہجو اور تنقیص پر مشتمل ہوتی ہے۔ اس کے لئے وہ برسر زمین حقائق کو بھی مسخ کرنے سے گریز نہیں کرتے ہیں۔ اسی طرح دوسرے بڑے قلمکار اور کالم نگار جو بڑے شاعر ، ادیب، ڈرامہ نگار اور مزاح نگار بھی ہیں اور جنہوں نے کالم نگاری کا آغاز تقریباً نصف صدی پیشتر کیا تھا راقم خود بھی شروع سے انکا قاری اور انکی تحریروں کا مداح چلا آرہا ہے لیکن اب انہیں میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے سوا اور کوئی نظر نہیں آتا جسکی وہ تعریف و توصیف کر سکیں۔ وہ انکی احسان مندی کا بوجھ اتارنے کے لئے اپنے ہر دوسرے یا تیسرے کالم میں عمران خان اور اسکے سونامی کو ہدف تنقید بناتے ہیں ۔ ان دو محترم کالم نگاروں کا حوالہ دینے پر ان سے معذرت ورنہ یہاں اور بھی کئی محترم قلمکاروں اور کالم نگاروں کا تذکرہ کیا جاسکتا ہے جو یہی وطیرہ اختیار کیے ہوئے ہیں اور اپنے محسنوں کی مدح سرائی اور انکے مخالفین کی کردار کشی میں کسی سے پیچھے نہیں ۔
یہاں میں ایک اپنے انتہائی محترم اور مہربان دوست کے ایک قومی معاصر میں چھپنے والے کالم کا حوالہ دینا چاہوں گا۔ الحمرا لاہور میں سہ روزہ قومی، ادبی و ثقافتی کانفرنس کی ”ادب و معاشرہ پر میڈیا کے اثرات “ والی نشست کے حوالے سے وہ لکھتے ہیں ”مقررین کی گفتگو اور حاضرین کے سوالات سے اندازہ ہوا کہ ہم واقعی توازن و اعتدال سے محروم ہوچکے ہیں اور یہ بھی کہ بری طرح بے سمتی کا شکار ہیں۔ میں نے اپنی مختصر گفتگو میں بھی اسی قدر کہا کہ ذہنوں کو آسودگی دینے اور سوچ کا قرینہ بخشنے والا ادب بہت پیچھے رہ گیا ہے میڈیا کی چکاچوند حاوی ہوچکی ہے، انتہا پسندی کا جادو سرچڑھ کر بول رہا ہے اور شائد میڈیا کو اندازہ نہیں کہ اب اسکی شوخ چشمی سے لوگ بے زار ہونے لگے ہیں۔ بے زاری بے اعتباری کو جنم دیتی ہے۔ اور جب کوئی ادارہ بے اعتبار ہوجائے تو بے وقار ہوتے اسے زیادہ دیر نہیں لگتی ۔ اگر میڈیا نے اپنے آپ کو نہ سنبھالا اور ریٹنگ کے بازار حصص میں اپنا بھاﺅ چڑھانے کے آشوب سے نہ نکل پایا تو وہ بے ساکھ ہو کر رہ جائے گا اور یہ بڑا قومی زیاں ہوگا“
آخر میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈا کے نا خداﺅں سے درخواست کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنی نیک نامی کو جنس بازار نہ بننے دیں ورنہ عام لوگ یہ سمجھنے میں حق بجانب ہونگے کہ انکے بارے میں بڑے بڑے فائدے اٹھانے ، لفافے لینے اور بعض شخصیات ، اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کی پے رول (Pay Roll) پر ہونے کی جو باتیں کی جاتی ہیں وہ بڑی حد تک مبنی بر حقیقت ہیں۔