ہمارا میڈیا صرف وی وی آئی پیز کیلئے عید کی خبریں چلاتا ہے۔ یہ خبر ان تک شاید نہ پہنچی ہو کہ پنجاب یونیورسٹی کے ہوسٹل میں رہ جانے والے بلوچستان کے سٹوڈنٹس کے اعزاز میں پنجاب یونیورسٹی کے دلیر اور دانشور وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران نے بقر عید کے پہلے دن دوپہر کی دعوت کی۔ میں بھی دعوت میں تھا اور شاید پگڑی والا صرف میں ہی تھا۔ عام بلوچ بھی اپنے لباس میں پگڑی اور واسکٹ ضروری سمجھتے ہیں۔ مجھے پختون خوا کے مقابلے میں پختونستان اچھا لگتا ہے مگر باچا خان کی اولاد کو نجانے کیا پسند ہے۔ بلوچستان کے نام کی نسبت سے پختونستان ٹھیک ہے مگر صوبہ سرحد میں پختونوں کے علاوہ بھی لوگ بستے ہیں۔ اسی لئے تو ہزارہ والوں نے الگ صوبے کی تحریک چلا رکھی ہے۔ پشاور دارالحکومت ہے مگر وہاں باچستان کہاں ہے؟
میں نے بلوچ سٹوڈنٹس سے پوچھا کہ انہوں نے نماز عید کہاں پڑھی ہے۔ وہ پنجاب یونیورسٹی میں بھی نماز عید پڑھ سکتے تھے مگر انہوں نے برکت مارکیٹ میں جا کے نماز عید پڑھی۔ صدر زرداری نے ایوان صدر کو جلسہ گاہ تو بنا لیا تھا۔ اب عیدگاہ بھی بنا لیا ہے۔ نااہل اور کرپٹ وزیراعظم گیلانی وہاں ہوتے تو کم از کم نماز عید پڑھ لیتے اور صدر زرداری سے گلے بھی مل لیتے اور ان کے کچھ گلے دور ہو جاتے۔ یہ ہوتے تو آصف ہاشمی بھی ایوان صدر میں جا کے نماز عید پڑھتے۔ نوازشریف نے بھی رائے ونڈ محل میں نماز عید پڑھی۔ شہباز شریف نے راجن پور سیلابی دوستوں کیساتھ نماز پڑھی۔ رائے ونڈ بھی اب سیاسی مرکز بن چکا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ نماز بھی یہ دونوں خود پڑھاتے۔ اچھا لگا کہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اور مسلم سفیروں نے فیصل مسجد میں نماز ادا کی۔ یہ بھی اچھا ہے کہ گورنر پنجاب سردار لطیف کھوسہ نے بادشاہی مسجد میں نماز ادا کی۔ شہباز شریف نے ڈیرہ غازی خان کے مصیبت زدگان کے ساتھ نماز پڑھی اور چودھری پرویز الٰہی نے اپنے آبائی شہر گجرات میں اپنے لوگوں کے ساتھ گھل مل کر نماز ادا کی۔
میں بقر عید کے تیسرے دن قربانی کرتا ہوں۔ نجانے قربانی دینے میں اور قربانی کرنے میں کیا فرق ہے۔ جتنا جوش و خروش اور ذوق و شوق سے ہمارے لوگ قربانی کر کے دکھاتے ہیں۔ قربانی دینے کا کوئی جذبہ دل میں نہیں ہوتا۔ ہم بظاہر سب کچھ کرتے ہیں مگر کسی عمل میں کوئی تاثر کوئی تاثیر کوئی کیفیت کوئی کیف باقی نہیں رہا۔ سب کچھ روٹین میں کیا جاتا ہے۔
نماز و روزہ و قربانی و حج
یہ سب باقی ہیں تو باقی نہیں ہے
میں عید قربان کے پہلے دن بالکل اکیلا تھا۔ مجھے بھی ڈاکٹر مجاہد کامران نے دوپہر کے کھانے پر بلایا۔ یہ دعوت پنجاب یونیورسٹی کے بلوچ سٹوڈنٹس کیلئے تھی کہ تم لاہور (پنجاب) میں اکیلے نہیں ہو۔ یہ ایک قومی سرگرمی تھی جو ڈاکٹر مجاہد کامران کے حصے میں آئی۔ سیاستدان صرف بیان بازی کرتے ہیں۔ عملی کام کوئی نہیں کرتا‘ میں وہاں پہنچا۔ سارے طالب علم خوش اور ہشاش بشاش تھے۔ میں ان سے ملا۔ ان کے ہاتھوں کی گرمجوشی کوئی پیغام دے رہی تھی۔ وہ ڈاکٹر مجاہد کامران کیلئے محبت کے جذبات کا اظہار کر رہے تھے۔ ان کی بقرعید ہو گئی بلکہ عید ہو گئی۔ اب چھوٹی عید اور بڑی عید میں فرق مٹتا جا رہا ہے۔ کھانے کے بعد بلوچ سٹوڈنٹس ڈاکٹر صاحب سے عید ملے بلکہ بقر عید ملے۔
مجھے بلوچ سٹوڈنٹس سے گفتگو کا بھی موقع ملا۔ وہ کسی کمپلیکس کا شکار نہ تھے۔ پاکستانیت کی چمک ان کی آنکھوں میں تھی۔ باتوں میں کچھ شکایتوں کی چنگاریاں بھی تھیں مگر یہ چنگاریاں بھی روشنی دینے والی تھیں۔ جلانے والی نہ تھیں۔ بھانبھڑ صرف سیاستدانوں یا ان جیسے بلوچ سرداروں کے دل میں ہیں۔ ان بڑے بڑے بچوں کے تاثرات میں دلیری تھی اور دردمندی بھی تھی۔ جو کچھ ڈاکٹر مجاہد کامران کر رہے ہیں۔ یہ امید دوسرے لوگوں سے بھی ہے۔ ایک ماہر تعلیم کا انداز سیاستدانوں سے مختلف ہوتا ہے۔ ڈاکٹر مجاہد کامران سیاستدان نہیں مگر ان کی نظر قومی اور بین الاقوامی امور پر بہت گہری ہے۔ وہ وسیع مطالعے کے آدمی ہیں اور بڑی بہادری سے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔
یہ سوال بہرحال موجود ہے کہ کوئٹہ یونیورسٹی میں پنجابی سٹوڈنٹس اتنے مطمئن نہیں ہوتے جیسے بلوچ سٹوڈنٹس یہاں ہیں۔ یہ بات پاکستانی ہونے کے لئے بہت ضروری ہے کہ ہم سب صرف پاکستانی بنیں۔ بلوچ طلبہ نے بتایا کہ بلوچستان میں بہت کم جگہوں کو چھوڑ کر کہیں بھی قومی ترانہ نہیں سنا جاتا۔ کہیں قومی پرچم نہیں لہرایا جاتا۔ مگر یہ ایشو زیادہ تر سیاسی ایشو ہے۔ اب بلوچستان میں بھی نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی شاخ نظریہ پاکستان فورم کے نام پر قائم ہے۔ اس کے سرپرست سید فصیح اقبال ہیں۔ وہ بلوچستان کیلئے بہت حوصلہ افزاءباتیں سناتے ہیں۔
یہ بلوچ طلبہ بہت سلجھے ہوئے اور متوازن دل و دماغ کے نوجوان ہیں۔ میرے ساتھ بات کرتے ہوئے وہ کسی مصلحت کا شکار نہ تھے۔ ان کے جو خیالات بلوچستان کی صورتحال کے حوالے سے ہیں ان کا کھل کر اظہار کر رہے تھے۔ میں نے بیرونی مداخلت کی بات کی تو انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ کھلم کھلا نہیں ہے۔ رحمان ملک اس حوالے سے بیان بازی کرتے رہتے ہیں۔ نااہل اور کرپٹ وزیراعظم گیلانی نے مصر کے شہر شرم الشیخ میں بھارتی وزیراعظم سے شکایت کی تھی مگر پھر انہیں کبھی شرم نہ آئی۔ وہ من موہن سنگھ سے ملے بھی مگر یہ تذکرہ کرنے کی جرا¿ت نہ کی۔ رحمان ملک بھارت دوستی کیلئے سرتوڑ کوشش کرتے ہیں اور بلوچستان میں الجھنوں کے اضافے کیلئے بھارت کی مداخلت کا ذکر پاکستان میں کرتے ہیں۔ بھارت کو امریکہ کی سرپرستی حاصل ہے۔ جبکہ ملک صاحب کشمیر میں پاکستان کی دراندازی نہ ہونے کی قسمیں بھارت میں کھاتے۔ صدر زرداری اور رحمان ملک کو حنا ربانی کھر پر یقین نہیں۔ اسلئے وزارت خارجہ اپنے ہاتھوں میں رکھی ہوئی ہے۔ ایک بلوچ سٹوڈنٹ نے بہت جذبے سے بات کی۔ اگر بلوچستان میں مداخلت ہے تو اسے روکنا بھی حکومت پاکستان کا فرض ہے۔ اس طرف رحمان ملک کا خیال کیوں نہیں جاتا۔
بلوچ سرداروں کے بارے میں بھی طلبہ نے متوازن رائے کا اظہار کیا۔ یہ بھی ان کی سوچ تھی کہ حکومت کو براہ راست بلوچ عوام سے رابطے کا اہتمام کرنا چاہئے۔ میرے ساتھ گفتگو میں کئی طلبہ نے دلچسپی لی۔ عبدالعلیم نے بہت ترجمانی کی۔ میرا دل ہے کہ ان سے بار بار ملاقات ہو۔ اس کیلئے ڈاکٹر مجاہد کامران موقع نکالیں گے۔