امریکی اہداف اور پالیسی واضح ہے۔ امریکہ جنوبی ایشیا کے وسائل اوراقتدار پر تسلط چاہتا ہے جبکہ جنوبی ایشیا مستقبل کی عالمی طاقت کا مرکزی خطہ ہے۔ اس وقت امریکہ دنیا کی واحد عالمی طاقت ہے۔ امریکہ کا کردار اور طاقت دوچند ہو جاتا ہے جب امریکہ عالمی اتحادی ممالک کے ساتھ ملکر مشترکہ پالیسی اور طریق کار اپنایا ہے۔ امریکہ نے نیو ورلڈ آڈر (نئی عالمی پالیسی) کے تحت پاک افغان (افپاک) خطے پر قبضہ کر رکھا ہے جبکہ بگرام امریکہ کا جی ایچ کیو ہے۔ امریکہ کی دوسری بڑی کامیابی پاک افغان ٹریڈ ٹرانزٹ معاہدہ (تجارتی راہداری) ہے۔ امریکی حکومت نے مذکورہ تجارتی راہداری معاہدے کو امریکہ کیلئے صدی کی سب سے بڑی اور اہم ترین کامیابی قرار دیا تھا۔ امریکہ کو پاکستان کے اندر دوبئی اور خلیج امارات جیسی چھوٹی چھوٹی نیم خودمختار ریاستوں کا قیام چاہئے جن کا معاشی، دفاعی اور انتظامی انحصار امریکہ و اتحادی ممالک پر ہو۔ اس ضمن میں یو ایس ایڈ، یو کے ایڈ، این جی اوز اور عالمی اداروں کی ایڈ کا کلیدی کردار ہے۔
نوازشریف کا حالیہ امریکی دورہ کامیاب یا ناکام تھا، اس کا فیصلہ وقت کرے گا مگر دورے کے مندرجات یعنی پاک امریکہ دوستی، تجارت اور تعاون کیلئے 6 مشترکہ کمیٹیوں کا قیام امریکی نیو ورلڈ آڈر کے عین مطابق ہے۔ امریکہ پاکستان کی ریاستی پالیسی پر قابض ہے۔لہٰذا پاکستان کے عوام کیلئے جنرل پرویز مشرف، بینظیر، زرداری، شریف برادران اور بلاول کی انتظامی پالیسی کو بنیادی فرق نہیں ہے۔ نیو ورلڈ آڈر کے تحت نوازشریف کا امریکی دورہ تاریخ ساز ہے، امریکہ نے مذکورہ بالا دو اہداف بھارت کو مرکزی سٹرٹیجک حلیف بنا کر حاصل کئے ہیں اب امریکہ متنازع کشمیر کا تصفیہ چاہتا ہے۔ امریکی پالیسی ہے کہ وہ کشمیر کو بذریعہ یو این او استعماری ریاست بنانا چاہتا ے۔ پاکستانی انتظامیہ مسئلہ کشمیر کے لئے یو این او کی ثالثی کیلئے بیتاب ہے جبکہ بھارت کا نام نہاد انتہا پسند ہندو طبقہ مسئلہ کشمیر کا حل شملہ معاہدہ یعنی دوطرفہ پالیسی کے تحت چاہتا ہے۔ کشمیر خطے کا اہم ترین سٹرٹیجک اور جغرافیائی رقبہ ہے۔ امریکہ بہر طور کشمیر پر استعماری تسلط چاہتا ہے۔ کشمیر پر یو این او کی پہلی ترجیح فوجی انخلاء ہے جو پاک بھارت سرحد کی کشیدگی کا باعث ہے۔ نیز بہاولپور فضائی سازش (17اگست 1988ئ) کے بعد کشمیری عوام اور قیادت میں تیسری آپشن یعنی خود مختار کشمیر پر خاصا کام ہوا ہے۔ یو این او نے امریکی ایماء پر کشمیر میں مختلف ڈیمز آبی ذخیرے بنائے جو خود مختار کشمیر کی آمدنی کا ذریعہ ہوگا۔ بھارتی انتہا پسند ہندو خود مختار کشمیر اور یو این او کی مداخلت کا اس لئے مخالف ہے کہ اگر موجودہ بھارت کا ایک اٹوٹ انگ علیحدہ ہوا تو بھارت انار کے دانے کی طرح بکھر جائے گا جبکہ پاکستان کی قومی ریاستی پالیسی عرصے سے مفقود ہے۔ پاکستانی انتظامیہ کشمیر کا جو حل چاہتی ہے وہ پاکستان کی سلامتی کیلئے بھی مہلک ہے کیونکہ متحدہ کشمیر میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کا صوبہ اور رقبہ بھی شامل ہے۔
افغانستان سے اتحادی افواج کا انخلاء امریکی استعماری اور انتظامی انخلاء نہیں ہے۔ امریکہ کا افغانستان سے فوجی انخلاء نیو ورلڈ آڈر پالیسی کا حصہ ہے۔برطانیہ نے کل 20 ہزار گورا فوج کی مدد سے متحدہ ہندوستان پر 100 سال اور بعض علاقوں میں اس سے بھی زیادہ عرصہ کامیابی سے قبضہ کئے رکھا۔ کیا امریکی انتظامیہ برطانوی مثال سے فائدہ نہیں اٹھائے گا؟ امریکہ کی جنوبی ایشیا میں کھربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری ہے۔ امریکہ یہ سرمایہ کاری ضائع نہیں کرے گا۔ امریکہ نے ورلڈ آڈر پالیسی اس وقت تک جاری رکھنی ہے جب تک خطے سے سیسہ پلائی قومی و ملی مزاحمت کا سامنا نہیں ہوگا۔ خطے میں امریکی انتظامی نیٹ ورک کی فعال سرگرمی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب پاکستانی انتظامیہ نے ریمنڈ ڈیوس کو گرفتار کیا تو امریکی انٹیلی جنس سی آئی اے نے اعلان کیا کہ پاکستان کے اندر ہمارا انتظامی نیٹ ورک (آپریشنل انٹیلی جنس نیٹ ورک) مکمل ہے ہم پاک فوج اور آئی ایس آئی کے بغیر آپریشن کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ نیز اگر پاکستان نے ریمنڈ کو رہا نہیں کیا تو امریکہ پاکستانی مقتدر طبقے کی اولاد اور عزیز و اقارب کو نقصان پہنچائے گا۔ غیر ملکی بنک بیلنس منجمد کردیا جائے گا نیز پاکستانی سفارتخانوں میں تعینات آئی ایس آئی کے افسروں کو نشانہ بنائیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت اہل پاکستان کا پاکستانی بنکر جینا مشکل ہوگیا ہے نیز پاکستانی انتظامیہ کی بدحالی کا حال یہ ہے کہ پاکستان میں ہونے والے حملوں اور دھماکوں کی فوری قانونی تفتیش نہیں کی جاتی بلکہ نام نہاد مزاحمتی قیادت کا فوری اخباری بیان حالات کا رخ بدل دیتے ہیں۔ پاکستان کی بے بسی کا یہ عالم ہے کہ وہ اپنے ناراض شہریوں اور قبائلیوں کے ساتھ امن مذاکرات بھی نہیں کرسکتا۔ وہ پاکستانی حکمرانوں کو باور کراتا ہے کہ امریکہ اور پاکستان کے دشمن مشترک ہیں۔ لہٰذا پاکستان ’’دشمنوں‘‘ کو خود مارے یا ہمیں ڈرون حملے وغیرہ سے مارنے دے، اس وقت پاکستان کے اندر نیشنلسٹ فوجیوں، افسروں اور شہریوں کی زندگی مشکل سے مشکل تر ہو رہی ہے۔اپنوں کا تحفظ بھی حکمرانوں کا فرض ہے۔ پاکستان پاک ہند مسلمانوں کی قومی و ملی جدوجہد کا ثمر ہے۔ یہ امریکی شہری بننے کیلئے نہیں بنائی گئی۔