وطن عزیز اس اعتبار سے خوش نصیب ہے کہ گزشتہ چھیاسٹھ برسوں میں اسے ایک سے بڑھ کر ایک چست، چالاک، بیدار مغز اور صاحب فن حکمران ملا ہے۔ یہ غالباً دنیا کا واحد ملک ہے جسکے ہر حاکم نے بیرون ملک کامیاب دورے کئے ہیں۔ ارباب اختیار چاہے امریکہ یاترا کریں یا بادل نخواستہ خشک ممالک ازقسم چین، روس وغیرہ جائیں۔ اپنی سابقہ لغزشیں بخشوانے، سرکاری خرچ پر حج یا عمرے کی سعادت حاصل کریں، کامیابی اور کامرانی ایک گائیڈڈ میزائل کی طرح ان کا پیچھا کرتی ہے۔ اب ہمارے ہر دل عزیز میاں نوازشریف صاحب کے حالیہ دورہ امریکہ ہی کو لیں، سرکاری بھونپوئوں، دربانوں سے بدتر درباریوں اور تخت لاہور کے گونگے شعرا نے بیک آواز ایک ہی سر میں ایک ہی راگ الاپنا شروع کردیا۔ میاں صاحب کا امریکہ میں فقید المثال استقبال کیا جائے گا۔ امریکی حکومت کو کانگرس کے ساتھ چپقلش کی وجہ سے (DEBT DEFALT) کی اتنی فکر نہیں جتنی چنتا اس بات کی ہے کہ میاں صاحب کے استقبال میں کوئی کمی نہ رہ جائے۔ کچھ یوں گمان ہوتا تھا کہ سارے امریکہ کو چراغاں کیا جا رہا ہے۔ باراک اوباما، سابقہ روایات کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپنی شمع فروزاں (مشعل اباما) کے ساتھ بنفس نفیس استقبالی قطار میں کھڑا ہوگا۔ تیس توپوں کی گھن گرج میں تینوں مسلح افواج کے چاک و چوبند دستے انہیں گارڈ آف آنر پیش کریں گے۔ حد نگاہ تک جھنڈیاں، بینر، بنٹنگ اور استقبالیہ دروازے لگے ہونگے۔ سکولوں کے بچے اپنی معصوم آواز میں نعرہ زن ہونگے۔ دیکھو! دیکھو! کون آیا… شیر آیا! شیر آیا!بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا جن لوگوں نے ٹی وی پر میاں صاحب کا استقبال دیکھا، انہیں یقینا مایوسی ہوئی ہوگی۔
چونکہ میاں نوازشریف تیسری بار وزیراعظم بنے ہیں اس لئے یہ کہنا تو زیادتی ہوگی کہ وہ سادہ لوح ہیںاور بین الاقوامی امور کا تجربہ نہیں رکھتے البتہ دورے سے قبل ان کے چند بیانات محل نظر ہیں۔امریکہ کو کہا جائے گا کہ وہ ہند وستان پر دبائو ڈال کے مسئلہ کشمیر حل کرائے۔ ڈرون حملے بند کرانے کا پرزور الفاظ میں مطالبہ کیا جائے گا۔ عافیہ صدیقی کی رہائی پر بات چیت ہوگی۔ جہاں تک معاشی امور کا تعلق ہے تو ایڈ نہیں ٹریڈ بڑھانے کا مطالبہ کیا جائے گا۔ملاقات کے بعد جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا اس سے صاف ظاہر ہے کہ کوئی مطالبہ بھی نہیں مانا گیا۔ کشمیر پر امریکہ کو موثر کردار ادا کرنے کا مطالبہ سادہ لوحی کی انتہا ہے۔ امریکہ جو ہندوستان کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ہر وقت کوشاں رہتا ہے، کیا وہ ہمارے کہنے پر ہندوستان پر پریشر ڈالے گا؟ میاں صاحب کے امریکہ پہنچنے سے پہلے ہی ہند وستان کے وزیر خارجہ نے بیان دے دیا۔ کشمیر پر کسی ملک کی مداخلت قبول نہیں کی جائیگی۔ بحث کی خاطر ہی سہی، بالفرض امریکہ کو منصف ٹھہرایا جاتا ہے تو اس نے یہ تو نہیں کہنا کہ مہاراج! اٹوٹ انگ کی رٹ لگانا چھوڑیئے اور مقبوضہ کشمیر پاکستان کے حوالے کر دیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتا ہے کہ ایل او سی کو بین الاقوامی بارڈر مان لیں۔ یہ بات پاکستان کو کسی صورت میں بھی قابل قبول نہیں ہوگی۔ من موہن سنگھ نے جو بیان دیا ہے اور جس قسم کی سرد مہری اور مخاصمت کا مظاہرہ ہندوستان کر رہا ہے، ہم میاں صاحب کو مشورہ دیں گے کہ ضرورت سے زیادہ جھکنا اور یک طرفہ ٹریفک چلانا قومی غیرت کے منافی ہے۔ آپ ایک نیو کلیئر پاور ہیں اور تمام بڑھکوں کے باوجود لالہ اس حقیقت کو بخوبی جانتا ہے۔ اگر امریکہ کے ساتھ تعلقات برابری کی سطح پر رکھنا چاہتے ہیں تو ہندوستان کو بھی حد سے آگے نہ بڑھنے دیں آپ پاکستانی قوم کے مزاج کو سمجھیں۔ یہ ہر بات برداشت کرلے گی لیکن کسی حالت میں بھی ہندو ستان کی بالادستی قبول نہیں کرے گی۔
ڈرون حملے کسی صورت میں بھی نہیں رکیں گے، یہ امریکہ کی جنگی حکمت عملی کا ’’کارنر سٹون‘‘ ہیں۔ مستقبل میں امریکہ کسی ملک میں اپنی فوجیں نہیں اتارے گا بلکہ اسی (PREDETOR) سے کام لے گا۔ دیگر چند ممالک میں بھی اس کو موثر طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ امریکہ سمجھتا ہے کہ ایسا وہ (HOTPURSUIT) کے تحت کر رہا ہے۔ معاملہ بالفرض عدالت میں بھی جائے تو کونسی عالمی عدالت امریکہ کے خلاف فیصلہ دے گی؟ ویسے بھی اس قسم کے نیم دلانہ مطالبے ہوتے ہیں۔ جہاں تک عافیہ صدیقی کی رہائی کا تعلق ہے تو گئے تھے نماز بخشوانے الٹا روزے بھی گلے پڑ گئے۔ انہوں نے ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی کا مطالبہ کردیا ہے۔ ’’سن کے ستم ظریف نے مجھکو اٹھا دیا کہ یوں‘‘
توانائی کے بحران کو حل کرنے کیلئے بھی کوئی معاہدہ نہیں ہوا۔ البتہ بجلی کے نرخ بڑھا کے حکومت نے جو عوام کا ’’مکوٹھپا‘‘ ہے اور ان کی زندگیاں اجیرن بنا دی گئیں ہیں، اس پر اوباما نے میاں صاحب کو شاباش ضرور دی ہے۔ ایران کے ساتھ معاہدے کو سرد خانے میں ڈالنے کے جو نتائج نکلیں گے وہ تو آئندہ آنے والی نسلیں بھگتیں گی، البتہ وقتی طور پر مصیبت کے دنوں میں کام آنے والے دوست خوش ہوگئے ہیں۔باریں ہمہ میاں صاحب کا دورہ بڑا کامیاب رہا ہے! یقین نہیں آتا تو اسحٰق ڈار، پرویز رشید اور رانا تنویر سے پوچھ لیں۔ رانا صاحب کی بصیرت کے ہم نہ صرف قائل بلکہ گھائل ہوگئے ہیں۔ ڈیڑھ ارب ڈالر کی امداد بحال ہونے پر فرماتے ہیں۔ اس سے ہندوستان کے ساتھ طاقت کے عدم توازن کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ جو بات کی خدا کی قسم لاجواب کی۔!